Guru Granth Sahib Translation Project

Urdu Classical Page 68

Page 68

ਮਨੁ ਤਨੁ ਅਰਪੀ ਆਪੁ ਗਵਾਈ ਚਲਾ ਸਤਿਗੁਰ ਭਾਏ ॥ ਸਦ ਬਲਿਹਾਰੀ ਗੁਰ ਅਪੁਨੇ ਵਿਟਹੁ ਜਿ ਹਰਿ ਸੇਤੀ ਚਿਤੁ ਲਾਏ ॥੭॥ ਸੋ ਬ੍ਰਾਹਮਣੁ ਬ੍ਰਹਮੁ ਜੋ ਬਿੰਦੇ ਹਰਿ ਸੇਤੀ ਰੰਗਿ ਰਾਤਾ ॥ ਪ੍ਰਭੁ ਨਿਕਟਿ ਵਸੈ ਸਭਨਾ ਘਟ ਅੰਤਰਿ ਗੁਰਮੁਖਿ ਵਿਰਲੈ ਜਾਤਾ ॥ ਨਾਨਕ ਨਾਮੁ ਮਿਲੈ ਵਡਿਆਈ ਗੁਰ ਕੈ ਸਬਦਿ ਪਛਾਤਾ ॥੮॥੫॥੨੨॥
॥منُ  تنُ  ارپیِ  آپُ  گۄائیِ  چلا  ستِگُر  بھاۓ
॥੭॥سد  بلِہاریِ  گُر  اپُنے  ۄِٹہُ  جِ  ہرِ  سیتیِ  چِتُ  لاۓ
॥سو  ب٘راہمنھُ  ب٘رہمُ  جو  بِنّدے  ہرِ  سیتیِ  رنّگِ  راتا
॥پ٘ربھُ  نِکٹِ  ۄسےَ  سبھنا  گھٹ  انّترِ  گُرمُکھِ  ۄِرلےَ  جاتا
॥੮॥੫॥੨੨॥نانک  نامُ  مِلےَ  ۄڈِیائیِ  گُر  کےَ  سبدِ  پچھاتا
لفظی معنی:پِربھ ۔ خُدا ۔ اللہ تعالیٰ ۔ بھرم ۔ شک شبہ ۔ بُھلائے ۔ گُمراہ کیئے ۔ منمُکھ ۔ خُودی پسند ۔ کرم ۔ اعمال ۔کرم ۔ بخشِشِ۔ عِنایت ۔ سالا یئے۔صِفت صلاح کرنی ۔ سہج۔رُوحانی سکون ۔ بھرم ۔ بھٹکن۔ پگ ورڈ ۔ محل ۔ ٹِھکانہ ۔ سچ ۔ حقیقت ۔ جمکال ۔موت ۔(2) گت۔ بُلندر رُوحانی رُتبہ ۔ بیتے ۔ جاننے والے ۔ برہم کے بیتے ۔خُدا کی پہچان کرنیوالا ۔ شبد ۔کلام ۔ پچھا نیہہ۔ پہچان کرتے ہیں ۔(3) دیت ۔ ہندو مذہب ۔میں ۔مُنکر و مُنافِق کو اِنسان کی بجائے لا مذہب کہتے تھے ۔ سنبجم۔ ضبط۔ بھاؤ۔ پیار ۔ بھیٹئے ۔ میلاپ کرنا ۔(4) کھٹ درشن ۔ چھ بھیکہہ۔ چھ بھیکہہ یا ویس ۔ جوگی ۔ سنیاسی ۔ جنگم ۔ سر یوڑے ۔ دیراگی ۔ بودھی ۔ مت۔ مریا دا ۔شرِیعت ۔ ختم کرنا ۔ (5)پنڈِت ۔ عالِم فاضِل ۔ وکھا نیہہ۔ بیان کرتے ہیں ۔ داد۔ بحث ۔جھگڑا ۔ مُکت ۔نِجات ۔(6) اُپجے ۔ پیدا ہوتا ہے ۔ میل مِلاپ ۔ سُبھائے ۔ پِریم سے ۔ آپ ۔ خُود ۔ گوائی ۔ دُور کرنا ۔ بھائے ۔پیار۔ ولہو۔ اُس پرسے ۔ (7) ہندے ۔پہچان ۔ رنگ ۔پِریم ۔پیار ۔(8)
ترجُمہ:دولت کی مُحبت خُدا کی خُود پیدا کردہ ہے ۔ اور خُود ہی کج روی لگاتا ہے ۔ خُودی پسند کج روی کرتا ہے مگر اُسکو سمجھتا نہیں ۔ اور زِندگی بے فائِدہ گُذر جاتی ہے ۔ کلام مُرشد اِس عالَم میں ایک روشنی ہے ۔ اور اِلہٰی کرم و عِنایت سے دِل میں بستی ہے ۔ اے دِل نام کی رِیاض کر اُس سے سُکھ مِلتا ہے ۔ کامِل مُرشد کو شاباش کہو ۔جِس سے رُوحانی سکون اور اِلہٰی میلاپ ہوتا ہے ۔ پائے اِلہٰی میں مُراد دِل لگانے سے شک و شہبات مِٹتے ہیں اور خوف دُور ہوتا ہے ۔ کلام مُرشد زیر کار لانے اور اُس پر عمل کرنے سے خُدا دِل میں بستا ہے ۔ اپنے ذہن میں مقیم اور سکون پاتا ہے ۔ اور رُوحانی موت اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔(2) نام دیو درزی اور کبیر بنکر جو اُس وقت کے شُودر یا کیمسن ذات کہلاتے تھے کامِل مُرشد کے مُرید ہوتے ہُوئے بُلند رُوحانی رُتبہ حاصِل ہُوا ۔ خُدا کو جاننے پہچاننے والے اور کلام کو سمجھنے والے تھے اور خُدا سے رِشتہ اور اشتراکیت پیدا کی اُس سے خُودی اور ذات مِٹا کر بُلند ردفانیت کے عمل دار ہُوئے ۔ فرِشتے اور اِنسان اُن کا کلام گاتے ہیں ۔اور کوئی مِٹا نہیں سکتا ۔(3) ایک مُنافق و مُنکر کا لڑکا جو مذہبی اعمال واصول بھی نہیں جانتا تھا، نہ فرض شناش تھا، نہ کِسی مذہبی کِتاب کا مُطالعہ کِیا تھا سچے مُرشد کے میلاپ سے پاک ہُوا جبکہ نہ اُسکا اپنے پر ضبط تھا، نہ دِل میں دُویش تھی روز و شب اِلہٰی نام کی رِیاض کرنے لگا اور وحدت کا قائِل ہو کر دِل میں بسا لیا اور کِسی دُوسرے کو اُس کا ثانی نہ سمجھتاتھا ۔(4) چھ درشنوں بہکھوں والے جوگی ،سنیاسی، و یراگی جنگم سر یوڑے ،ناتھ، یودھی وغیرہ وغیرہ بغیر مُرشد کے کلام کے کج روی میں بھٹکتے  پِھرتے ہیں ۔اور دُنیاوی دولت میں مشتفرق رہتے ہیں ۔ نِجات حاصِل نہیں کر پاتے ۔ سچے مُرشد کی خِدمت اور اِلہٰی نام دِل میں بسا کر ہی رُوحانیت اور زِندگی گُذارنے کا حقیقی سلِیقہ و طرِیقہ زِندگی حاصِل ہوتا ہے پتہ چلتا ہے اور سچے کلام کو دِل میں بسانے سے تناسُخ مِٹتا ہے ۔(5) عالَم پڑھ پڑھ کر بحث مُباحِثے کرتے ہیں ۔ بغیر مُرشد بھٹکن ختم نہیں ہوتی ۔ اور چوراسی لاکھ جنموں کا آواگون بنا رہتا ہے ۔ جب مُرشد  پائے مُرشد سے اِنسان کو مِلاتا ہے تو وہ اِلہٰی رِیاض کرتا ہے جِس سے اُسے رُوحانیت حاصِل ہوتا ہے ۔(6)  جب پیار سے مُرشد مِلتا ہے تو پاکدامنوں کی صُحبت و قُربت میں اِلہٰی نام ظہور میں آتا ہے ۔میں اپنی دِل و جان اُسکے حوالے کردُوں ۔ تو خُودی مِٹ جاتی ہےاور سچے مُرشد کے پیار بسر اوقات کرُوں ۔ جو مُرشد مُجھے خُدا سے مِلاتا ہے اُسپر قُربان جاؤں ۔ (7)بر اہمن وہ ہے جِس نے خُدا کی پہچان کی ہے ۔ اور خُدا سے اُسکا پیار ہے ۔ خُدا سب کے دِلوں میں اور ساتھ بستا ہے ۔ مگر کوئی ہی مُرشد کی وساطت سے سمجھتا ہے ۔ اے نانک کلام مُرشد پر عمل سے خُدا کی پہچان اور رسائی ہوتی ہے نام اور عظمت و حشمت و شُہرت پاتے ہیں۔۔

ਸਿਰੀਰਾਗੁ ਮਹਲਾ ੩ ॥ ਸਹਜੈ ਨੋ ਸਭ ਲੋਚਦੀ ਬਿਨੁ ਗੁਰ ਪਾਇਆ ਨ ਜਾਇ ॥ ਪੜਿ ਪੜਿ ਪੰਡਿਤ ਜੋਤਕੀ ਥਕੇ ਭੇਖੀ ਭਰਮਿ ਭੁਲਾਇ ॥ ਗੁਰ ਭੇਟੇ ਸਹਜੁ ਪਾਇਆ ਆਪਣੀ ਕਿਰਪਾ ਕਰੇ ਰਜਾਇ ॥੧॥ ਭਾਈ ਰੇ ਗੁਰ ਬਿਨੁ ਸਹਜੁ ਨ ਹੋਇ ॥ ਸਬਦੈ ਹੀ ਤੇ ਸਹਜੁ ਊਪਜੈ ਹਰਿ ਪਾਇਆ ਸਚੁ ਸੋਇ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ ਸਹਜੇ ਗਾਵਿਆ ਥਾਇ ਪਵੈ ਬਿਨੁ ਸਹਜੈ ਕਥਨੀ ਬਾਦਿ ॥ ਸਹਜੇ ਹੀ ਭਗਤਿ ਊਪਜੈ ਸਹਜਿ
 ਪਿਆਰਿ ਬੈਰਾਗਿ ॥ ਸਹਜੈ ਹੀ ਤੇ ਸੁਖ ਸਾਤਿ ਹੋਇ ਬਿਨੁ ਸਹਜੈ ਜੀਵਣੁ ਬਾਦਿ ॥੨॥ ਸਹਜਿ ਸਾਲਾਹੀ ਸਦਾ ਸਦਾ ਸਹਜਿ ਸਮਾਧਿ ਲਗਾਇ ॥ ਸਹਜੇ ਹੀ ਗੁਣ ਊਚਰੈ ਭਗਤਿ ਕਰੇ ਲਿਵ ਲਾਇ ॥ ਸਬਦੇ ਹੀ ਹਰਿ ਮਨਿ ਵਸੈ ਰਸਨਾ ਹਰਿ ਰਸੁ ਖਾਇ ॥੩॥ ਸਹਜੇ ਕਾਲੁ ਵਿਡਾਰਿਆ ਸਚ ਸਰਣਾਈ ਪਾਇ ॥ ਸਹਜੇ ਹਰਿ ਨਾਮੁ ਮਨਿ ਵਸਿਆ ਸਚੀ ਕਾਰ ਕਮਾਇ ॥ ਸੇ ਵਡਭਾਗੀ ਜਿਨੀ ਪਾਇਆ ਸਹਜੇ ਰਹੇ ਸਮਾਇ ॥੪॥ ਮਾਇਆ ਵਿਚਿ ਸਹਜੁ ਨ ਊਪਜੈ ਮਾਇਆ ਦੂਜੈ ਭਾਇ ॥ ਮਨਮੁਖ ਕਰਮ ਕਮਾਵਣੇ ਹਉਮੈ ਜਲੈ ਜਲਾਇ ॥ ਜੰਮਣੁ ਮਰਣੁ ਨ ਚੂਕਈ ਫਿਰਿ ਫਿਰਿ ਆਵੈ ਜਾਇ ॥ ੫॥ ਤ੍ਰਿਹੁ ਗੁਣਾ ਵਿਚਿ ਸਹਜੁ ਨ ਪਾਈਐ ਤ੍ਰੈ ਗੁਣ ਭਰਮਿ ਭੁਲਾਇ ॥ ਪੜੀਐ ਗੁਣੀਐ ਕਿਆ ਕਥੀਐ ਜਾ ਮੁੰਢਹੁ ਘੁਥਾ ਜਾਇ ॥ ਚਉਥੇ ਪਦ ਮਹਿ ਸਹਜੁ ਹੈ ਗੁਰਮੁਖਿ ਪਲੈ ਪਾਇ ॥੬॥ ਨਿਰਗੁਣ ਨਾਮੁ ਨਿਧਾਨੁ ਹੈ ਸਹਜੇ ਸੋਝੀ ਹੋਇ ॥ ਗੁਣਵੰਤੀ ਸਾਲਾਹਿਆ ਸਚੇ ਸਚੀ ਸੋਇ ॥ ਭੁਲਿਆ ਸਹਜਿ ਮਿਲਾਇਸੀ ਸਬਦਿ ਮਿਲਾਵਾ ਹੋਇ ॥੭॥ ਬਿਨੁ ਸਹਜੈ ਸਭੁ ਅੰਧੁ ਹੈ ਮਾਇਆ ਮੋਹੁ ਗੁਬਾਰੁ ॥ ਸਹਜੇ ਹੀ ਸੋਝੀ ਪਈ ਸਚੈ ਸਬਦਿ ਅਪਾਰਿ ॥ ਆਪੇ ਬਖਸਿ ਮਿਲਾਇਅਨੁ ਪੂਰੇ ਗੁਰ ਕਰਤਾਰਿ ॥੮॥ ਸਹਜੇ ਅਦਿਸਟੁ ਪਛਾਣੀਐ ਨਿਰਭਉ ਜੋਤਿ ਨਿਰੰਕਾਰੁ ॥ ਸਭਨਾ ਜੀਆ ਕਾ ਇਕੁ ਦਾਤਾ ਜੋਤੀ ਜੋਤਿ ਮਿਲਾਵਣਹਾਰੁ ॥ ਪੂਰੈ ਸਬਦਿ ਸਲਾਹੀਐ ਜਿਸ ਦਾ ਅੰਤੁ ਨ ਪਾਰਾਵਾਰੁ ॥੯॥ ਗਿਆਨੀਆ ਕਾ ਧਨੁ ਨਾਮੁ ਹੈ ਸਹਜਿ ਕਰਹਿ ਵਾਪਾਰੁ ॥ ਅਨਦਿਨੁ ਲਾਹਾ ਹਰਿ ਨਾਮੁ ਲੈਨਿ ਅਖੁਟ ਭਰੇ ਭੰਡਾਰ ॥ ਨਾਨਕ ਤੋਟਿ ਨ ਆਵਈ ਦੀਏ ਦੇਵਣਹਾਰਿ ॥੧੦॥੬॥੨੩॥
੩॥سِریِراگُ  مہلا
॥سہجےَ  نو  سبھ  لوچدیِ  بِنُ  گُر  پائِیا  ن  جاءِ
॥پڑِ  پڑِ  پنّڈِت  جوتکیِ  تھکے  بھیکھیِ  بھرمِ  بھُلاۓ
॥੧॥گُر  بھیٹے  سہجُ  پائِیا  آپنھیِ  کِرپا  کرے  رجاءِ
॥بھائیِ  رے  گُر  بِنُ  سہجُ  ن  ہوءِ
॥੧॥  رہاءُ  ॥سبدےَ  ہیِ  تے  سہجُ  اوُپجےَ  ہرِ  پائِیا  سچُ  سوءِ
॥سہجے  گاۄِیا  تھاءِ  پۄےَ  بِنُ  سہجےَ  کتھنیِ  بادِ
॥سہجے  ہیِ  بھگتِ  اوُپجےَ  سہجِ  پِیارِ  بیَراگِ
॥੨॥سہجےَ  ہیِ  تے  سُکھ  ساتِ  ہوءِ  بِنُ  سہجےَ  جیِۄنھُ  بادِ
॥سہجِ  سالاہیِ  سدا  سدا  سہجِ  سمادھِ  لگاءِ
॥سہجے  ہیِ  گُنھ  اوُچرےَ  بھگتِ  کرے  لِۄ  لاءِ
॥੩॥سبدے  ہیِ  ہرِ  منِ  ۄسےَ  رسنا  ہرِ  رسُ  کھاءِ
॥سہجے  کالُ  ۄِڈارِیا  سچ  سرنھائیِ  پاءِ
॥سہجے  ہرِ  نامُ  منِ  ۄسِیا  سچیِ  کار  کماءِ
॥੪॥سے  ۄڈبھاگیِ  جِنیِ  پائِیا  سہجے  رہے  سماءِ
॥مائِیا  ۄِچِ  سہجُ  ن  اوُپجےَ  مائِیا  دوُجےَ  بھاءِ
॥منمُکھ  کرم  کماۄنھے  ہئُمےَ  جلےَ  جلاءِ
॥੫॥جنّمنھُ  مرنھُ  ن  چوُکئیِ  پھِرِ  پھِرِ  آۄےَ  جاءِ
॥ت٘رِہُ  گُنھا  ۄِچِ  سہجُ  ن  پائیِئےَ  ت٘رےَ  گُنھ  بھرمِ  بھُلاءِ
॥پڑیِئےَ  گُنھیِئےَ  کِیا  کتھیِئےَ  جا  مُنّڈھہُ  گھُتھا  جاءِ
॥੬॥چئُتھے  پد  مہِ  سہجُ  ہےَ  گُرمُکھِ  پلےَ  پاءِ
॥نِرگُنھ  نامُ  نِدھانُ  ہےَ  سہجے  سوجھیِ  ہوءِ
॥گُنھۄنّتیِ  سالاہِیا  سچے  سچیِ  سوءِ
॥੭॥بھُلِیا  سہجِ  مِلائِسیِ  سبدِ  مِلاۄا  ہوءِ
॥بِنُ  سہجےَ  سبھُ  انّدھُ  ہےَ  مائِیا  موہُ  گُبارُ
॥سہجے  ہیِ  سوجھیِ  پئیِ  سچےَ  سبدِ  اپارِ
॥੮॥آپے  بکھسِ  مِلائِئنُ  پوُرے  گُر  کرتارِ
॥سہجے  ادِسٹُ  پچھانھیِئےَ  نِربھءُ  جوتِ  نِرنّکارُ
॥سبھنا  جیِیا  کا  اِکُ  داتا  جوتیِ  جوتِ  مِلاۄنھہارُ
॥੯॥پوُرےَ  سبدِ  سلاہیِئےَ  جِس  دا  انّتُ  ن  پاراۄارُ
॥گِیانیِیا  کا  دھنُ  نامُ  ہےَ  سہجِ  کرہِ  ۄاپارُ
॥اندِنُ  لاہا  ہرِ  نامُ  لیَنِ  اکھُٹ  بھرے  بھنّڈار
॥੧੦॥੬॥੨੩॥نانک  توٹِ  ن  آۄئیِ  دیِۓ  دیۄنھہارِ
لفظی معنی:سہجے ۔ رُوحانی سکون ۔ لوچدی ۔ چاہتی ہے ۔ خواہِش کرتی ہے ۔ جو تکی ۔ جوتشی ۔ بھیکی ۔بھیس بنانے والے ۔بھیٹے ۔ میلاپ سے ۔ شبدے ۔ کلام ۔ اُپجے ۔پیدا ہوتا ہے ۔ سچ۔ حق۔ خُدا ۔ کتھنی ۔کہنا ۔گاوِیا۔ صِفت صلاح ۔ تھائے پوے۔ قبُول ہونا  ۔ باد ۔جھگڑا ۔ فضُول ۔ (2) صلاحی ۔ تُو صِفت صلاح کر ۔ لِو لائے ۔ دِھیان لگانا ۔ رسنا ۔زبان ۔(3) کال ۔موت ۔ وڈیا ۔ ختم کیا ۔(4) دُوجے بھائے ۔دُویش ۔ دوئی ۔ دُوسروں سے پیار ۔ منمُکھ کرم۔ اعمال خُود پسنداں ۔ نہ چکی۔ ختم نہیں ہوتے ۔(5) ترے گُن ۔ زِندگی کے تِین اوصاف ۔ رجو ۔ ستو ۔ تمو ۔(6) گمتھا ترگننام ۔ تِینوں اوصاف زِندگی سے بُلند تر اوصاف جِسے پرم پد کہتے ہیں ۔ سوئے۔ شُہرت ۔(7) مِلائن ۔اُس نے مِلا لیے ہیں ۔ اند۔اندھا ۔نابینا ۔ غُبار ۔جہالت ۔اندھیرا ۔ کرتار۔کونیولا ۔(8) سہجے ۔ رُوحانی سکون ۔ جوت ۔ نُور ۔ روشنی ۔ نِرنکار۔ بغیرا آکار ۔ وہ جِسکا جِسمانی پھیلاؤ نہ ہو (9) کریہہ ۔ کرتے ہیں ۔ بھنڈار ۔ خزانہ ۔ دیونھہار ۔ دینے والا ۔ (۔10)
ترجُمہ:رُوحانی سکون تو سب چاہتے ہیں مگر مُرشد کے بغیر لاحاصِل ہے ۔ جو تشی اور پنڈِت پڑہتے ماند پڑگئے ۔ مگر کرم کانڈی چھ بھیکوں والے وہم گُمان میں بُھولے رُوحانی و ذہنی سکُون نہیں پا سکے ۔ میلاپِ مُرشد اور رضائے اِلہٰی سے رُوحانی سکُون مِلتا ہے ۔ اُسکے کرم و عِنایت سے ۔ اے برادر مُرشد کے بغیر سکون نہیں ۔ کلام مُرشد سے ہی سکُون پیدا ہوتا ہے اور اِلہٰی میلاپ سے سچی حقیقی شُہرت مِلتی ہے۔(1) پُرسکُون ہوکر صِفت صلاح کرنے سے اِلہٰی دربار میں مقبُولیت حاصِل ہوتی ہے بغیر سکُون کُچھ کہنا صِرف بحث ہے ۔ سکُون سے ہی اِلہٰی پِیارپیدا ہوتا ہے ۔ رُوحانی اور ذہنی سکُون سے سُکھ ۔ٹھنڈک مِلتی ہے۔سکُون کے بغیر زِندگی ایک لڑائی جھگڑا ہے ۔(2) پُرسکُون ہوکر ہمیشہ اپنی عقل و ہوش کو مر کوز کرکے صِفت صلاح کرؤ ۔ پُرسکُون اوصاف گاؤ اور پِریم پیار سے اُس میں مرکوز ہوجاؤ ۔ کلام سے خُدا دِل میں بستا ہے ۔ زبان سے اُسکا لُطف لو ۔(3) سچ کی پناہ اپنا کر پُرسکُون اِلہٰی نام دِل میں بسا کر سچے اعمال و کِردار سے آسانی سے رُوحانی موت ختم کیجاسکتی ہے ۔ وہ خُوش قِسمت ہیں جِنکا میلاپ ہوگیا اور جِنکے دِل میں رُوحانی سکُون پیدا نہیں ہوتا اور دُویش سے پیار کرنے سے خُودی پسند کِردار سے اِنسان خُودی میں جلتا رہتا ہے اور تناسُخ نہیں مِٹتا ۔ زِندگی کے تِینوں اوصاف رجو۔ ستو ۔ تمو میں سکُون پیدا نہیں ہوتا ۔(5)تِینوں اوصاف کے اہم و گُمان میں مُبتلا ہوکر بھٹکن میں گج روی اختیار کر لیتا ہے ۔ پڑھنے پڑھانے اور کہنے کا کیا فائِدہ جب بُنیادی طور پر ہی غلط راستے پر گامزن ہے ۔ اور راستے سے بھٹک گیا ہے اِن تِینوں اوصاف زِندگی سے اُوپر بیباک چوتھے بُلند اخلاقی و رُوحانی درجے کی زِندگی میں پُہنچ کر دِل میں ٹھنڈک و شانتی پیدا ہوتی ہے ۔ یہ حالت جو مُرید مُرشد دامن میں ڈالتا ہے ۔(6)  تِینوں اوصاف سے پاک پیلاگ رُوح یا ذہن یہ ایک نام کا خزانہ ہے ۔ رُوحانی سکون میں اُسکی سمجھ آتی ہے ۔ با وصف اِنسان ہی خُدا کی صِفت صلاح کرتے ہیں اور اُن کو رُوحانی سکُون اور کلام میلاپ ہو جاتاہے ۔(7) بغیر رُوحانی سکُون تمام اندھیرا غُبار دُنیاوی دولت کی مُحبت کاگہرا اندھیرا چھا یا رہتا ہے ۔ رُوحانیی سکُون میں سچے کلام سے سمجھ آئی اور کامِل مُرشد نے اپنے کرم و عِنایت سے میلاپ کروایا ۔(8)  رُوحانی سکُون میں ہی آنکھوں سے اُوجھل بیخوف خُدا بِلا آکار نُورانی پہچان ہُوئی ۔ سب کا ہے واحِد خُدا جو سب کو دینے والا ہے جو اِنسانی نُور کو اپنے نُور میں جذب کرنے اور مِلانے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اُسکی کامِل کلام سے صِفت کرؤجو لا محدُود ہے ۔ (9)  عالَم کی دولت و سرمایہ یہ نام ہے سچ حق و حقیقت ، پُر سکُون اُسکی سوداگری کرتے ہیں.

© 2017 SGGS ONLINE
error: Content is protected !!
Scroll to Top