Page 767
ਆਪਿ ਸਾਜੇ ਥਾਪਿ ਵੇਖੈ ਤਿਸੈ ਭਾਣਾ ਭਾਇਆ ॥
رب خود ہی کائنات کو وجود عطا کرتا ہے اور وجود کے کے بعد اس کی نگہبانی کرتا ہے اور اس کی رضا سنت کو پسند آئی ہے۔
ਸਾਜਨ ਰਾਂਗਿ ਰੰਗੀਲੜੇ ਰੰਗੁ ਲਾਲੁ ਬਣਾਇਆ ॥੫॥
سنت حضرات رب کے رنگ میں مگن رہتے ہیں اور انہوں نے محبت کا گہرا سرخ رنگ بنالیا ہے۔ 5۔
ਅੰਧਾ ਆਗੂ ਜੇ ਥੀਐ ਕਿਉ ਪਾਧਰੁ ਜਾਣੈ ॥
اے بھائی! اگر نابینا یعنی بے علم انسان رہنما بن جائے، تو وہ راہِ راست کو کیسے سمجھے گا؟
ਆਪਿ ਮੁਸੈ ਮਤਿ ਹੋਛੀਐ ਕਿਉ ਰਾਹੁ ਪਛਾਣੈ ॥
وہ اپنی احمقانہ خیال کے سبب دھوکا کھا رہا ہے، وہ راہ راست کیسے معلوم کرسکتا ہے؟
ਕਿਉ ਰਾਹਿ ਜਾਵੈ ਮਹਲੁ ਪਾਵੈ ਅੰਧ ਕੀ ਮਤਿ ਅੰਧਲੀ ॥
وہ راہ راست پر کیسے جائے؛ تاکہ وہ رب کا محل پالے۔ اس اندھے شخص کا دل نابینا ہی ہوتا ہے۔
ਵਿਣੁ ਨਾਮ ਹਰਿ ਕੇ ਕਛੁ ਨ ਸੂਝੈ ਅੰਧੁ ਬੂਡੌ ਧੰਧਲੀ ॥
ہری کے نام کے بغیر اس سے کچھ بھی نظر نہیں آتا اور وہ کائنات کے معاملات میں ہی مگن رہتا ہے۔
ਦਿਨੁ ਰਾਤਿ ਚਾਨਣੁ ਚਾਉ ਉਪਜੈ ਸਬਦੁ ਗੁਰ ਕਾ ਮਨਿ ਵਸੈ ॥
اگر اس کے دل میں گرو کا کلام بس جاتا ہے، اس کے دل میں جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور دل میں شب و روز علم کا نور روشن رہتا ہے۔
ਕਰ ਜੋੜਿ ਗੁਰ ਪਹਿ ਕਰਿ ਬਿਨੰਤੀ ਰਾਹੁ ਪਾਧਰੁ ਗੁਰੁ ਦਸੈ ॥੬॥
وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گرو سے التجا کرتا ہے اور گرو اسے راہ راست کی طرف رہنمائی کردیتا ہے۔ 6۔
ਮਨੁ ਪਰਦੇਸੀ ਜੇ ਥੀਐ ਸਭੁ ਦੇਸੁ ਪਰਾਇਆ ॥
اگر انسان کا دل پردیسی ہوجائے یعنی حقیقی ذات سے بچھڑا رہے، تو اسے ساری دنیا ہی اجنبی معلوم ہوتی ہے۔
ਕਿਸੁ ਪਹਿ ਖੋਲ੍ਹ੍ਹਉ ਗੰਠੜੀ ਦੂਖੀ ਭਰਿ ਆਇਆ ॥
میں کس کے سامنے ہے اپنی تکلیف بیان کروں؟ کیوں کہ ساری کائنات ہی تکالیف سے دوچار ہے۔
ਦੂਖੀ ਭਰਿ ਆਇਆ ਜਗਤੁ ਸਬਾਇਆ ਕਉਣੁ ਜਾਣੈ ਬਿਧਿ ਮੇਰੀਆ ॥
ساری کائنات تکالیف سے بھرا ہوا گھر ہے، پھر میری حالت سے کون واقف ہو سکتا ہے؟
ਆਵਣੇ ਜਾਵਣੇ ਖਰੇ ਡਰਾਵਣੇ ਤੋਟਿ ਨ ਆਵੈ ਫੇਰੀਆ ॥
انسان کی پیدائش و موت کا چکر بہت ہی خطرناک ہے اور یہ چکر کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔
ਨਾਮ ਵਿਹੂਣੇ ਊਣੇ ਝੂਣੇ ਨਾ ਗੁਰਿ ਸਬਦੁ ਸੁਣਾਇਆ ॥
جنہیں گرو نے کلام (رب کا نام) نہیں سنایا، وہ بے نام لوگ اداس رہتے ہیں۔
ਮਨੁ ਪਰਦੇਸੀ ਜੇ ਥੀਐ ਸਭੁ ਦੇਸੁ ਪਰਾਇਆ ॥੭॥
اگر انسان کا دل پردیسی ہوجائے، تو اسے ساری کائنات ہی اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ 7۔
ਗੁਰ ਮਹਲੀ ਘਰਿ ਆਪਣੈ ਸੋ ਭਰਪੁਰਿ ਲੀਣਾ ॥
جس شخص کے دل نما گھر میں محل کا مالک رب بس جاتا ہے، تب وہ ہمہ گیر رب میں مگن ہوجاتا ہے۔
ਸੇਵਕੁ ਸੇਵਾ ਤਾਂ ਕਰੇ ਸਚ ਸਬਦਿ ਪਤੀਣਾ ॥
خادم اسی وقت خدمت کرتا ہے، جب اس کا دل سچے کلام میں مگن ہوجاتا ہے۔
ਸਬਦੇ ਪਤੀਜੈ ਅੰਕੁ ਭੀਜੈ ਸੁ ਮਹਲੁ ਮਹਲਾ ਅੰਤਰੇ ॥
جب اس کا دل کلام میں مگن ہوجاتا ہے اور دل نام نما رس میں بھیگ جاتا ہے، تو اسے رب کا محل دل نما گھر میں ہی مل جاتا ہے۔
ਆਪਿ ਕਰਤਾ ਕਰੇ ਸੋਈ ਪ੍ਰਭੁ ਆਪਿ ਅੰਤਿ ਨਿਰੰਤਰੇ ॥
جو خالق خود اس کائنات کو پیدا کرتا ہے، آخر میں وہی اسے اپنی ذات میں سمو لیتا ہے۔
ਗੁਰ ਸਬਦਿ ਮੇਲਾ ਤਾਂ ਸੁਹੇਲਾ ਬਾਜੰਤ ਅਨਹਦ ਬੀਣਾ ॥
گرو کے کلام کے ذریعے انسان کا رب سے وصل ہوجاتا ہے، پھر وہ مسرور ہوجاتا ہے اور من میں قلبی آواز کی ساز بجتی رہتی ہے۔
ਗੁਰ ਮਹਲੀ ਘਰਿ ਆਪਣੈ ਸੋ ਭਰਿਪੁਰਿ ਲੀਣਾ ॥੮॥
جس کے دل میں رب بس جاتا ہے، تو وہ رب میں ہی سما جاتا ہے۔ 8۔
ਕੀਤਾ ਕਿਆ ਸਾਲਾਹੀਐ ਕਰਿ ਵੇਖੈ ਸੋਈ ॥
اس کائنات کی کیا تعریف کرتے ہو، جسے رب نے وجود بخشا ہے۔
ਤਾ ਕੀ ਕੀਮਤਿ ਨਾ ਪਵੈ ਜੇ ਲੋਚੈ ਕੋਈ ॥
اس رب کی تعریف و توصیف کرو، جس نے ساری کائنات کو وجود بخشا ہے اور ہر ایک کی نگہبانی کرتا رہتا ہے۔
ਕੀਮਤਿ ਸੋ ਪਾਵੈ ਆਪਿ ਜਾਣਾਵੈ ਆਪਿ ਅਭੁਲੁ ਨ ਭੁਲਏ ॥
اگر کوئی اس کے اندازہ لگانے کی کوشش کرے، تو وہ اندازہ نہیں لگاسکتا۔ اس کی شان کا وہی اندازہ لگاسکتا ہے، جسے وہ خود علم عطا کرتا ہے۔
ਜੈ ਜੈ ਕਾਰੁ ਕਰਹਿ ਤੁਧੁ ਭਾਵਹਿ ਗੁਰ ਕੈ ਸਬਦਿ ਅਮੁਲਏ ॥
رب کبھی بھول نہیں کرتا، وہ تو ناقابل فراموش ہے۔ اے رب! گرو کے انمول کلام کے ذریعے جو تیری کبریائی بیان کرتے رہتے ہیں، وہی تجھے پسند آتے ہیں۔
ਹੀਣਉ ਨੀਚੁ ਕਰਉ ਬੇਨੰਤੀ ਸਾਚੁ ਨ ਛੋਡਉ ਭਾਈ ॥
اے بھائی! میں حقیر و ذلیل ہوں اور یہی دعا کرتا ہوں کہ میں کبھی بھی سچے (نام) کو نہ بھولوں۔
ਨਾਨਕ ਜਿਨਿ ਕਰਿ ਦੇਖਿਆ ਦੇਵੈ ਮਤਿ ਸਾਈ ॥੯॥੨॥੫॥
اے نانک! جو رب انسانوں کو پیدا کرکے ان کی نگہبانی کررہا ہے، وہی انہیں عقل سلیم عطا کرتا ہے۔ 6۔ 2۔ 5۔
ਰਾਗੁ ਸੂਹੀ ਛੰਤ ਮਹਲਾ ੩ ਘਰੁ ੨
راگو سوہی چھنت محلہ 3 گھرو 2
ੴ ਸਤਿਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ॥
رب وہی ایک ہے، جس کا حصول صادق گرو کے فضل سے ممکن ہے۔
ਸੁਖ ਸੋਹਿਲੜਾ ਹਰਿ ਧਿਆਵਹੁ ॥
پائیدار تارک الدنیا ہری کا دھیان کرو اور
ਗੁਰਮੁਖਿ ਹਰਿ ਫਲੁ ਪਾਵਹੁ ॥
گرومکھ بن کر پھل پالو۔
ਗੁਰਮੁਖਿ ਫਲੁ ਪਾਵਹੁ ਹਰਿ ਨਾਮੁ ਧਿਆਵਹੁ ਜਨਮ ਜਨਮ ਕੇ ਦੂਖ ਨਿਵਾਰੇ ॥
ہری نام کا دھیان کرو،پھل پالو؛ کیوں کہ یہ کئی جنموں کی تکالیف دور کردیتا ہے۔
ਬਲਿਹਾਰੀ ਗੁਰ ਅਪਣੇ ਵਿਟਹੁ ਜਿਨਿ ਕਾਰਜ ਸਭਿ ਸਵਾਰੇ ॥
میں اپنے گرو پر کروڑوں بار قربان جاتا ہوں، جس نے میرا ہر کام سنوار دیا ہے۔
ਹਰਿ ਪ੍ਰਭੁ ਕ੍ਰਿਪਾ ਕਰੇ ਹਰਿ ਜਾਪਹੁ ਸੁਖ ਫਲ ਹਰਿ ਜਨ ਪਾਵਹੁ ॥
اے ہریجنوں! رب کرم کرے، تو اس کے نام کا ذکر کرو اور خوشی نما پھل پالو۔
ਨਾਨਕੁ ਕਹੈ ਸੁਣਹੁ ਜਨ ਭਾਈ ਸੁਖ ਸੋਹਿਲੜਾ ਹਰਿ ਧਿਆਵਹੁ ॥੧॥
نانک عرض کرتا ہے کہ اے میرے ہریجن بھائیو! پائیدار تارک الدنیا ہری کا دھیان کرو۔ 1۔
ਸੁਣਿ ਹਰਿ ਗੁਣ ਭੀਨੇ ਸਹਜਿ ਸੁਭਾਏ ॥
جو شخص گرو کی تعلیم کے مطابق بآسانی ہی نام کا دھیان کرتا ہے،
ਗੁਰਮਤਿ ਸਹਜੇ ਨਾਮੁ ਧਿਆਏ ॥
ہری کی حمد و ثنا سننے سے ان کا دل فطری طور پر ہی اس کی محبت میں بھیگ جاتا ہے۔
ਜਿਨ ਕਉ ਧੁਰਿ ਲਿਖਿਆ ਤਿਨ ਗੁਰੁ ਮਿਲਿਆ ਤਿਨ ਜਨਮ ਮਰਣ ਭਉ ਭਾਗਾ ॥
ابتداء سے ہی جن کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے، انہیں ہی گرو ملا ہے اور ان کی پیدائش و موت کا خوف دور ہوگیا ہے۔