Page 467
"ਓਨੑੀ ਮੰਦੈ ਪੈਰੁ ਨ ਰਖਿਓ ਕਰਿ ਸੁਕ੍ਰਿਤੁ ਧਰਮੁ ਕਮਾਇਆ ॥
وہ غلط راستوں پر اپنا پاؤں نہیں رکھتے اور نیک اعمال اور دین کماتے ہیں۔
"ਓਨੑੀ ਦੁਨੀਆ ਤੋੜੇ ਬੰਧਨਾ ਅੰਨੁ ਪਾਣੀ ਥੋੜਾ ਖਾਇਆ ॥
وہ دنیا کے بندھنوں کو توڑ دیتے ہیں اور کچھ کھانا پانی کھاتے ہیں۔
ਤੂੰ ਬਖਸੀਸੀ ਅਗਲਾ ਨਿਤ ਦੇਵਹਿ ਚੜਹਿ ਸਵਾਇਆ ॥
اے رب ! تو ہی سب سے بڑا عطا کرنے والا ہے، جو ہمیشہ ہی دیتا رہتا ہے۔
ਵਡਿਆਈ ਵਡਾ ਪਾਇਆ ॥੭॥
انسان عظیم رب کی حمد و ثنا کرکے شہرت حاصل کرلیتا ہے۔
ਸਲੋਕ ਮਃ ੧ ॥
شلوک محلہ
ਪੁਰਖਾਂ ਬਿਰਖਾਂ ਤੀਰਥਾਂ ਤਟਾਂ ਮੇਘਾਂ ਖੇਤਾਂਹ ॥
اے نانک! مردوں، درختوں۔ زیارت گاہوں، ساحلوں، بادلوں، کھیتوں،
ਦੀਪਾਂ ਲੋਆਂ ਮੰਡਲਾਂ ਖੰਡਾਂ ਵਰਭੰਡਾਂਹ ॥
جزائر، دنیا، خطے، کائنات،
ਅੰਡਜ ਜੇਰਜ ਉਤਭੁਜਾਂ ਖਾਣੀ ਸੇਤਜਾਂਹ ॥
انڈے، پرندے، پسینے سے پیدا ہونے والا اور پیڑ،
ਸੋ ਮਿਤਿ ਜਾਣੈ ਨਾਨਕਾ ਸਰਾਂ ਮੇਰਾਂ ਜੰਤਾਹ ॥
جھیلوں اور پہاڑوں میں رہنے والے تمام جانداروں کی گنتی رب ہی جانتا ہے کہ کتنی ہے۔
ਨਾਨਕ ਜੰਤ ਉਪਾਇ ਕੈ ਸੰਮਾਲੇ ਸਭਨਾਹ ॥
اے نانک! رب ہی ہے جانداروں کو پیدا کرکے اور ان کو پالتا ہے۔
ਜਿਨਿ ਕਰਤੈ ਕਰਣਾ ਕੀਆ ਚਿੰਤਾ ਭਿ ਕਰਣੀ ਤਾਹ ॥
جس خالق نے کائنات بنائی ہے، وہی اس کی پرواہ اور دیکھ بھال کرتا ہے۔
ਸੋ ਕਰਤਾ ਚਿੰਤਾ ਕਰੇ ਜਿਨਿ ਉਪਾਇਆ ਜਗੁ ॥
وہ خالق جس نے دنیا بنائی ہے، وہ اس کی فکر بھی خود ہی کرتا ہے۔
ਤਿਸੁ ਜੋਹਾਰੀ ਸੁਅਸਤਿ ਤਿਸੁ ਤਿਸੁ ਦੀਬਾਣੁ ਅਭਗੁ ॥
وہ رب فلاح و بہبود والا ہے، اسے میرا سو سو بار سلام ہے۔ اس کا دربار اٹل ہے۔
ਨਾਨਕ ਸਚੇ ਨਾਮ ਬਿਨੁ ਕਿਆ ਟਿਕਾ ਕਿਆ ਤਗੁ ॥੧॥
اے نانک! سچے نام کے ذکر کے بغیر تلک لگانے اور دھاگا باندھنے کا کیا مطلب ہے؟
ਮਃ ੧ ॥
محلہ
ਲਖ ਨੇਕੀਆ ਚੰਗਿਆਈਆ ਲਖ ਪੁੰਨਾ ਪਰਵਾਣੁ ॥
چاہے لاکھوں ہی نیکیاں، اچھائیاں، لاکھوں ہی اچھا کام کیا ہو، چاہے لاکھوں ہی حلال عمل، لاکھ علم مراقبہ اور پرانوں کے اسباق پڑھے ہوں، تو بھی سب بے سود ہے۔
ਲਖ ਤਪ ਉਪਰਿ ਤੀਰਥਾਂ ਸਹਜ ਜੋਗ ਬੇਬਾਣ ॥
چاہے زیارت گاہوں پر لاکھوں ہی تپسیا کیے ہوں اور جنگلوں میں جاکر لمبا چوڑا یوگ کیا ہو،
ਲਖ ਸੂਰਤਣ ਸੰਗਰਾਮ ਰਣ ਮਹਿ ਛੁਟਹਿ ਪਰਾਣ ॥
چاہے لاکھوں آدمیوں نے جنگ میں بہادری کا مظاہرہ کیا اور میدان جنگ میں جام شہادت نوش کیا ہو۔
ਲਖ ਸੁਰਤੀ ਲਖ ਗਿਆਨ ਧਿਆਨ ਪੜੀਅਹਿ ਪਾਠ ਪੁਰਾਣ ॥
چاہے لاکھوں ہی حلال عمل، لاکھوں ہی علمی مراقبہ اور پرانوں کے اسباق پڑھے ہوں، تو بھی سب بے کار ہیں۔
ਜਿਨਿ ਕਰਤੈ ਕਰਣਾ ਕੀਆ ਲਿਖਿਆ ਆਵਣ ਜਾਣੁ ॥
چوں کہ جس رب نے یہ دنیا بنائی ہے، اسی نے جانداروں کی پیدائش اور موت کا تعین کر رکھا ہے۔
ਨਾਨਕ ਮਤੀ ਮਿਥਿਆ ਕਰਮੁ ਸਚਾ ਨੀਸਾਣੁ ॥੨॥
اے نانک! رب کا کرم(مہربانی)ہی حق کی نشانی ہے، باقی تمام چالاکیاں جھوٹی ہیں۔
ਪਉੜੀ ॥
پؤڑی
ਸਚਾ ਸਾਹਿਬੁ ਏਕੁ ਤੂੰ ਜਿਨਿ ਸਚੋ ਸਚੁ ਵਰਤਾਇਆ ॥
اے رب ! ایک تو ہی سچا مالک ہیں، جس نے حتمی سچائی کو پھیلایا ہوا ہے۔
ਜਿਸੁ ਤੂੰ ਦੇਹਿ ਤਿਸੁ ਮਿਲੈ ਸਚੁ ਤਾ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹੀ ਸਚੁ ਕਮਾਇਆ ॥
جسے تو (سچائی) دیتا ہے، وہی حق کو حاصل کرتا ہے اور وہ حق کا کام کرتا ہے۔
ਸਤਿਗੁਰਿ ਮਿਲਿਐ ਸਚੁ ਪਾਇਆ ਜਿਨ੍ਹ੍ਹ ਕੈ ਹਿਰਦੈ ਸਚੁ ਵਸਾਇਆ ॥
جس انسان کو ست گرو مل جاتا ہے، اسے سچائی حاصل ہوتی ہے۔ سچا گرو ان کے دلوں میں سچائی بسادیتا ہے۔
ਮੂਰਖ ਸਚੁ ਨ ਜਾਣਨ੍ਹ੍ਹੀ ਮਨਮੁਖੀ ਜਨਮੁ ਗਵਾਇਆ ॥
لیکن بے علم انسان حق کو نہیں جانتا جس روح کو ستگرو مل جاتا ہے،بے عقل ہونے کے نتیجے میں وہاپنی پیدائش کو رائیگاں کر دیتا ہے۔
ਵਿਚਿ ਦੁਨੀਆ ਕਾਹੇ ਆਇਆ ॥੮॥
ایسے لوگ اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟
ਸਲੋਕੁ ਮਃ ੧ ॥
شلوک محلہ
ਪੜਿ ਪੜਿ ਗਡੀ ਲਦੀਅਹਿ ਪੜਿ ਪੜਿ ਭਰੀਅਹਿ ਸਾਥ ॥
چاہے گاڑیاں لاد کر بھی کتابیں پڑھ لی جائیں، کتابوں کے تمام طبقات کا مطالعہ کرلیا جائے۔
ਪੜਿ ਪੜਿ ਬੇੜੀ ਪਾਈਐ ਪੜਿ ਪੜਿ ਗਡੀਅਹਿ ਖਾਤ ॥
چاہے پڑھ پڑھ کر کتابوں سے کشتی میں بھر لی جائے یا پڑھ پڑھ کر کھڈے بھر لیے جائیں۔
ਪੜੀਅਹਿ ਜੇਤੇ ਬਰਸ ਬਰਸ ਪੜੀਅਹਿ ਜੇਤੇ ਮਾਸ ॥
چاہے برسوں تک پڑھائی کی جائے، چاہئے جتنے بھی مہینے پڑھے جائے۔
ਪੜੀਐ ਜੇਤੀ ਆਰਜਾ ਪੜੀਅਹਿ ਜੇਤੇ ਸਾਸ ॥
چاہے ساری عمر پڑھتے رہو،زندگی کی سانسیں باقی رہنے تک پڑھتے رہو۔
ਨਾਨਕ ਲੇਖੈ ਇਕ ਗਲ ਹੋਰੁ ਹਉਮੈ ਝਖਣਾ ਝਾਖ ॥੧॥
لیکن اے نانک! دربارِ حق میں ایک ہی بات منظور ہے، رب کا نام یاد رکھنا انسان کے اعمال نامے میںہے، باقی سب کچھ کبر میں بکواس کرنا ہے
ਮਃ ੧ ॥
محلہ
ਲਿਖਿ ਲਿਖਿ ਪੜਿਆ ॥ਤੇਤਾ ਕੜਿਆ ॥
انسان جتنا زیادہ پڑھتا لکھتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ غم میں جلتا رہتا ہے۔
ਬਹੁ ਤੀਰਥ ਭਵਿਆ ॥ਤੇਤੋ ਲਵਿਆ ॥
وہ جتنا زیادہ زیارت گاہوں پر گھومتا ہے، اتنا ہی بے مقصد بولتا ہے۔
ਬਹੁ ਭੇਖ ਕੀਆ ਦੇਹੀ ਦੁਖੁ ਦੀਆ ॥
آدمی جتنا زیادہ مذہبی لباس پہنتا ہے، اتنا ہی جسم کو غم زدہ کرتا ہے۔
ਸਹੁ ਵੇ ਜੀਆ ਅਪਣਾ ਕੀਆ ॥
اے انسان! اب تو اپنے اعمال کا مزہ چکھو۔
ਅੰਨੁ ਨ ਖਾਇਆ ਸਾਦੁ ਗਵਾਇਆ ॥
جو شخص کھانا نہیں کھاتا، وہ زندگی کا ذائقہ کھو دیتا ہے۔
ਬਹੁ ਦੁਖੁ ਪਾਇਆ ਦੂਜਾ ਭਾਇਆ ॥
بھید بھاؤ میں پڑ کر انسان بہت اداس ہوتا ہے۔
ਬਸਤ੍ਰ ਨ ਪਹਿਰੈ ॥ ਅਹਿਨਿਸਿ ਕਹਰੈ ॥
جو لباس نہیں پہنتا، وہ دن رات اداس رہتا ہے۔
ਮੋਨਿ ਵਿਗੂਤਾ ॥ ਕਿਉ ਜਾਗੈ ਗੁਰ ਬਿਨੁ ਸੂਤਾ ॥
خاموش رہنے سے انسان تباہ ہو جاتا ہے، گرو کے بغیر موہ مایا میں سویا ہوا کیسے جاگ سکتا ہے؟
ਪਗ ਉਪੇਤਾਣਾ ॥ ਅਪਣਾ ਕੀਆ ਕਮਾਣਾ ॥
جو شخص ننگے پاؤں چلتا ہے،" وہ اپنے اعمال کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
ਅਲੁ ਮਲੁ ਖਾਈ ਸਿਰਿ ਛਾਈ ਪਾਈ ॥
وہ آدمی جو نہ کھانے والی گندگی کھاتا ہے اور سر پر راکھ ڈلواتا ہے،
ਮੂਰਖਿ ਅੰਧੈ ਪਤਿ ਗਵਾਈ ॥
وہ نادان نابینا اپنی عزت کھو بیٹھتا ہے۔
ਵਿਣੁ ਨਾਵੈ ਕਿਛੁ ਥਾਇ ਨ ਪਾਈ ॥
سچے نام کے بغیر کوئی بھی چیز قبول نہیں ہوتی۔
ਰਹੈ ਬੇਬਾਣੀ ਮੜੀ ਮਸਾਣੀ ॥
وہ جنگلوں، قبرستان اور شمشان گھاٹ میں رہتا ہے۔
ਅੰਧੁ ਨ ਜਾਣੈ ਫਿਰਿ ਪਛੁਤਾਣੀ ॥
اندھا انسان رب کو نہیں جانتا اور پھر توبہ کرتا ہے۔