Page 278
ਨਾਨਾ ਰੂਪ ਜਿਉ ਸ੍ਵਾਗੀ ਦਿਖਾਵੈ ॥
نانا رُوپ جِیو سواگی دِکھاوےَ
بہروپیوں کی طرح وہ کئی شکل اختیار کرتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔
ਜਿਉ ਪ੍ਰਭ ਭਾਵੈ ਤਿਵੈ ਨਚਾਵੈ ॥
جیو پربھ بھاوےَ تِوےَ نچاوےَ
جس طرح رب کو مناسب لگتا ہے، ویسے ہی رقص کرتا ہے۔
ਜੋ ਤਿਸੁ ਭਾਵੈ ਸੋਈ ਹੋਇ ॥
جُو تِس بھاوےَ سوئی ہوئے
جییسے اس کو اچھا لگتا ہے، وہی ہوتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਦੂਜਾ ਅਵਰੁ ਨ ਕੋਇ ॥੭॥
نانک دُوجا اَور نہ کوئے۔ 7
اے نانک! اس کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں۔
ਕਬਹੂ ਸਾਧਸੰਗਤਿ ਇਹੁ ਪਾਵੈ ॥
کبہُو سادھ سانگت
اس انسان کو کبھی ست سنگتی مل جائے، تو
ਉਸੁ ਅਸਥਾਨ ਤੇ ਬਹੁਰਿ ਨ ਆਵੈ ॥
اُس استھان تے بہُر نہ آوےَ
اس (مقدس) جگہ سے دوبارہ وہ لوٹ کر نہیں آتا۔
ਅੰਤਰਿ ਹੋਇ ਗਿਆਨ ਪਰਗਾਸੁ ॥
انتر ہوئے گیان پرگاس
اس کے دل میں علم کا نور ہوتا ہے۔
ਉਸੁ ਅਸਥਾਨ ਕਾ ਨਹੀ ਬਿਨਾਸੁ ॥
اُس استھان کا نہیں بِناس
وہ ٹھکانہ کبھی تباہ نہیں ہوتا۔
ਮਨ ਤਨ ਨਾਮਿ ਰਤੇ ਇਕ ਰੰਗਿ ॥
من تن نام رتے اِک رنگ
جس کا دماغ اور جسم خدا کے نام اور محبت میں مگن رہتا ہے۔
ਸਦਾ ਬਸਹਿ ਪਾਰਬ੍ਰਹਮ ਕੈ ਸੰਗਿ ॥
سدا بسہہ پاربرہم کےَ سنگ
یہ ہمیشہ واہے گرو کے ساتھ رہتا ہے۔
ਜਿਉ ਜਲ ਮਹਿ ਜਲੁ ਆਇ ਖਟਾਨਾ ॥
جیو جل مہہ جل آئے کھٹانا
جس طرح پانی آکر پانی میں ہی مل جاتا ہے۔
ਤਿਉ ਜੋਤੀ ਸੰਗਿ ਜੋਤਿ ਸਮਾਨਾ ॥
تیو جوتی سنگ جوت سمانا
اسی طرح اس کا نور اعلیٰ کی روشنی میں جذب ہو جاتا ہے۔
ਮਿਟਿ ਗਏ ਗਵਨ ਪਾਏ ਬਿਸ੍ਰਾਮ ॥
مِٹ گئے گَوَن پائے بِسرام
اس کا آواگون (پیدائش و موت) ختم ہو جاتا ہے اور وہ سکھ پالیتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਪ੍ਰਭ ਕੈ ਸਦ ਕੁਰਬਾਨ ॥੮॥੧੧॥
نانک پربھ کےَ سد قُربان ۔ 8 ۔ 11
اے نانک! ایسے رب پر میں ہمیشہ قربان جاتا ہوں۔
ਸਲੋਕੁ ॥
سلوک
شلوک
ਸੁਖੀ ਬਸੈ ਮਸਕੀਨੀਆ ਆਪੁ ਨਿਵਾਰਿ ਤਲੇ ॥
سُکھی بسےَ مسکینیا آپ نِوار تلےَ
کھلی طبیعت والا انسان خوشی میں رہتا ہے۔ وہ اپنی انا کو ترک کر کے عاجز و انکسار ہوجاتا ہے۔
ਬਡੇ ਬਡੇ ਅਹੰਕਾਰੀਆ ਨਾਨਕ ਗਰਬਿ ਗਲੇ ॥੧॥
بڈے بڈے اہنکاریا نانک گرب گلے۔ 1
(لیکن) اے نانک! بڑے انا پرست انسان اپنی انا میں ہی فنا ہو جاتے ہیں۔
ਅਸਟਪਦੀ ॥
اسٹپدی
اشٹپدی۔
ਜਿਸ ਕੈ ਅੰਤਰਿ ਰਾਜ ਅਭਿਮਾਨੁ ॥
جِس کےَ انتر راج ابھمان
جس شخص کے دل میں حکومت کا غرور ہوتا ہے۔
ਸੋ ਨਰਕਪਾਤੀ ਹੋਵਤ ਸੁਆਨੁ ॥
سو نرکپاتی ہووَت سُوآن
ایسا شخص جہنم میں گرنے والا کتا ہوتا ہے۔
ਜੋ ਜਾਨੈ ਮੈ ਜੋਬਨਵੰਤੁ ॥
جو جانےَ مےَ جوبن ونت
جو شخص خود کو انا پرستی میں بہت خوبصورت (کامل جوان) سمجھتا ہے۔
ਸੋ ਹੋਵਤ ਬਿਸਟਾ ਕਾ ਜੰਤੁ ॥
سو ہووَت بِسٹا کا جنت
وہ غلاظت کا کیڑا ہوتا ہے۔
ਆਪਸ ਕਉ ਕਰਮਵੰਤੁ ਕਹਾਵੈ ॥
آپس کو کرمونت کہاوےَ
جو شخص خود کو نیک اعمال کرنے والا کہلاتا ہے۔
ਜਨਮਿ ਮਰੈ ਬਹੁ ਜੋਨਿ ਭ੍ਰਮਾਵੈ ॥
جنم مرےَ بہو جون بھرماوےَ
وہ پیدائش اور موت کے چکر میں پھنس کر اکثر رحموں میں بھٹکتا رہتا ہے۔
ਧਨ ਭੂਮਿ ਕਾ ਜੋ ਕਰੈ ਗੁਮਾਨੁ ॥
دھن بھوُم کا جو کرےَ گُمان
جو انسان اپنی دولت اور زمین پر فخر کرتا ہے،
ਸੋ ਮੂਰਖੁ ਅੰਧਾ ਅਗਿਆਨੁ ॥
سو مُورکھ اندھا اگیان
وہ احمق، اندھا اور جاہل ہے۔
ਕਰਿ ਕਿਰਪਾ ਜਿਸ ਕੈ ਹਿਰਦੈ ਗਰੀਬੀ ਬਸਾਵੈ ॥
کر کِرپا جِس کےَ ہِردےَ گریبی بساوےَ
جس انسان کے دل میں رب اپنے فضل سے عاجزی بسادیتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਈਹਾ ਮੁਕਤੁ ਆਗੈ ਸੁਖੁ ਪਾਵੈ ॥੧॥
نانک ایِہا مُکت آگےَ سُکھ پاوےَ ۔ 1
اے نانک! ایسا انسان دنیا میں نجات اور آخرت میں سکھ حاصل کرتا ہے۔
ਧਨਵੰਤਾ ਹੋਇ ਕਰਿ ਗਰਬਾਵੈ ॥
دھنونتا ہوئے کر گرباوے
جو شخص امیر ہوکر اپنی دولت پر فخر کرتا ہے،
ਤ੍ਰਿਣ ਸਮਾਨਿ ਕਛੁ ਸੰਗਿ ਨ ਜਾਵੈ ॥
ترِن سمان کچھ سنگ نہ جاوےَ
ایک تنکے کے برابر بھی کچھ اس کے ساتھ نہیں جاتا۔
ਬਹੁ ਲਸਕਰ ਮਾਨੁਖ ਊਪਰਿ ਕਰੇ ਆਸ ॥
بہو لسکر مانُکھ اُوپر کرے آس
جو انسان عظیم فوج اور لوگوں پر امید لگائے رکھتا ہے،
ਪਲ ਭੀਤਰਿ ਤਾ ਕਾ ਹੋਇ ਬਿਨਾਸ ॥
پل بھیتر تا کا ہوئے بِناس
وہ ایک لمحے میں ہی فنا ہو جاتا ہے۔
ਸਭ ਤੇ ਆਪ ਜਾਨੈ ਬਲਵੰਤੁ ॥
سبھ تے آپ جانےَ بلونت
جو انسان خود کو سب سے طاقت ور سمجھتا ہے،
ਖਿਨ ਮਹਿ ਹੋਇ ਜਾਇ ਭਸਮੰਤੁ ॥
کھِن مہہ ہوئے جائے بھسمنت
وہ ایک لمحے میں راکھ ہوجاتا ہے۔
ਕਿਸੈ ਨ ਬਦੈ ਆਪਿ ਅਹੰਕਾਰੀ ॥
کِسےَ نہ بدےَ آپ اہنکاری
جو انسان اپنی انا میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا،
ਧਰਮ ਰਾਇ ਤਿਸੁ ਕਰੇ ਖੁਆਰੀ ॥
دھرم رائے تِس کرے کھوآری
یمراج آخر میں اسے بڑا دکھ دیتا ہے۔
ਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ਜਾ ਕਾ ਮਿਟੈ ਅਭਿਮਾਨੁ ॥
گُر پرساد جا کا مِٹےَ ابھمان
اے نانک! گرو کی مہربانی سے جس انسان کا غرور مٹ جاتا ہے،
ਸੋ ਜਨੁ ਨਾਨਕ ਦਰਗਹ ਪਰਵਾਨੁ ॥੨॥
سو جن نانک درگہہ پروان ۔ 2
ایسا شخص ہی رب کے دربار میں مقبول ہوتا ہے۔
ਕੋਟਿ ਕਰਮ ਕਰੈ ਹਉ ਧਾਰੇ ॥
کوٹ کرم کرےَ ہَو دھارے
اگر کوئی شخص کروڑوں نیکیاں کرتا ہوا فخر کرے۔
ਸ੍ਰਮੁ ਪਾਵੈ ਸਗਲੇ ਬਿਰਥਾਰੇ ॥
سرم پاوےَ سگلے بِرتھارے
وہ تو تکلیف ہی اٹھاتا ہے، اس کے سارے کام بے کار ہوجاتے ہیں۔
ਅਨਿਕ ਤਪਸਿਆ ਕਰੇ ਅਹੰਕਾਰ ॥
انِک تپسیا کرے اہنکار
جو شخص بہت سی تپسیا کر کے تکبر کرتا ہے۔
ਨਰਕ ਸੁਰਗ ਫਿਰਿ ਫਿਰਿ ਅਵਤਾਰ ॥
نرک سُرگ پھِر پھِر اوتار
وہ بار بار جنت و جہنم میں جنم لیتا رہتا ہے۔
ਅਨਿਕ ਜਤਨ ਕਰਿ ਆਤਮ ਨਹੀ ਦ੍ਰਵੈ ॥
انِک جتن کر آتم نہیں دروےَ
جس کا دل بہت کوششوں کے باوجود بھی عاجز نہیں ہوتا۔
ਹਰਿ ਦਰਗਹ ਕਹੁ ਕੈਸੇ ਗਵੈ ॥
ہر درگہہ کہو کےَ سے گوےَ
تو بتاؤ! وہ بندہ واہے گرو کے دربار میں کیسے جا سکتا ہے؟
ਆਪਸ ਕਉ ਜੋ ਭਲਾ ਕਹਾਵੈ ॥
آپس کو جو بھلا کہاوےَ
جو شخص اپنے آپ کو اچھا کہلاتا ہے۔
ਤਿਸਹਿ ਭਲਾਈ ਨਿਕਟਿ ਨ ਆਵੈ ॥
تسہہ بھلائی نِکٹ نہ آوےَ
بھلائی اس کے قریب نہیں آتی۔
ਸਰਬ ਕੀ ਰੇਨ ਜਾ ਕਾ ਮਨੁ ਹੋਇ ॥
سرب کی ریَن جا کا من ہوئے
اے نانک! جس کا من سب کے قدموں کی دھول بن جاتا ہے،
ਕਹੁ ਨਾਨਕ ਤਾ ਕੀ ਨਿਰਮਲ ਸੋਇ ॥੩॥
کہو نانک تا کی نِرمل سوئے ۔ 3
اس کے پاس خالص خوبصورتی ہوتی ہے۔
ਜਬ ਲਗੁ ਜਾਨੈ ਮੁਝ ਤੇ ਕਛੁ ਹੋਇ ॥
جاب لگ جانےَ مُجھ تے کچھ ہوئے
جب تک انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ مجھ ہی سے کچھ ہو سکتا ہے،
ਤਬ ਇਸ ਕਉ ਸੁਖੁ ਨਾਹੀ ਕੋਇ ॥
تب اِس کو سُکھ ناہی کوئے
تب تک اسے کوئی خوشی نہیں ملتی۔
ਜਬ ਇਹ ਜਾਨੈ ਮੈ ਕਿਛੁ ਕਰਤਾ ॥
جب ایہہ جانےَ مےَ کِچھ کرتا
جب تک انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں کچھ کرتا ہوں،
ਤਬ ਲਗੁ ਗਰਭ ਜੋਨਿ ਮਹਿ ਫਿਰਤਾ ॥
تب لگ گربھ جوَن مہہ پھِرتا
تب تک وہ رحم کی اندرونی دنیا میں گھومتا رہتا ہے۔
ਜਬ ਧਾਰੈ ਕੋਊ ਬੈਰੀ ਮੀਤੁ ॥
جب دھارےَ کووُ بیَری میِت
جب تک انسان کسی کو دشمن اور کسی کو دوست سمجھتا ہے،
ਤਬ ਲਗੁ ਨਿਹਚਲੁ ਨਾਹੀ ਚੀਤੁ ॥
تب لگ نہچل ناہی چِیت
تب تک اس کا من مطمئن نہیں ہوتا۔
ਜਬ ਲਗੁ ਮੋਹ ਮਗਨ ਸੰਗਿ ਮਾਇ ॥
جب لگ موہ مگن سنگ مائے
جب تک انسان ممتا کی محبت میں مگن رہتا ہے،
ਤਬ ਲਗੁ ਧਰਮ ਰਾਇ ਦੇਇ ਸਜਾਇ ॥
تب لگ دھرم رائے دے سجائے
تب تک یمراج اسے سزا دیتا رہتا ہے۔
ਪ੍ਰਭ ਕਿਰਪਾ ਤੇ ਬੰਧਨ ਤੂਟੈ ॥
پربھ کِرپا تے بندھن تُوٹےَ
واہے گرو کے فضل و کرم سے انسان کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔
ਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ਨਾਨਕ ਹਉ ਛੂਟੈ ॥੪॥
گُرپرساد نانک ہَوں چھُوٹےَ۔ 4
اے نانک! گرو کی مہربانی سے انا پرستی ختم ہو جاتی ہے۔
ਸਹਸ ਖਟੇ ਲਖ ਕਉ ਉਠਿ ਧਾਵੈ ॥
سہس کھٹے لکھ کو اُٹھ دھاوے
انسان ہزارو کماکر بھی لاکھوں کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔