Page 1371
ਕਬੀਰ ਚੁਗੈ ਚਿਤਾਰੈ ਭੀ ਚੁਗੈ ਚੁਗਿ ਚੁਗਿ ਚਿਤਾਰੇ ॥
اے کبیر! پرندہ کُونج دانہ چگتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو یاد کرتا ہے، بار بار دانہ چگتے ہوئے بھی وہ اُن کی یادمیں ڈوبا رہتا ہے۔
ਜੈਸੇ ਬਚਰਹਿ ਕੂੰਜ ਮਨ ਮਾਇਆ ਮਮਤਾ ਰੇ ॥੧੨੩॥
جیسے بچوں کی یاد کُونج (پرندہ) کے دل میں بسی رہتی ہے، ویسے ہی انسان کے دل میں مایا کی محبت لگی رہتی ہے۔ 123۔
ਕਬੀਰ ਅੰਬਰ ਘਨਹਰੁ ਛਾਇਆ ਬਰਖਿ ਭਰੇ ਸਰ ਤਾਲ ॥
جب آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں، اور تالاب و جھیلیں بارش سے بھر جاتی ہیں،
ਚਾਤ੍ਰਿਕ ਜਿਉ ਤਰਸਤ ਰਹੈ ਤਿਨ ਕੋ ਕਉਨੁ ਹਵਾਲੁ ॥੧੨੪॥
تب بھی چاتک (پپیہا) سوامی بوند کی ہی پیاس رکھتا ہے اُس کا کیا حال ہوگا؟ 124۔
ਕਬੀਰ ਚਕਈ ਜਉ ਨਿਸਿ ਬੀਛੁਰੈ ਆਇ ਮਿਲੈ ਪਰਭਾਤਿ ॥
جیسے چکوی رات کو چکوا سے بچھڑتی ہے اور صبح ہوتے ہی دوبارہ مل جاتی ہے۔
ਜੋ ਨਰ ਬਿਛੁਰੇ ਰਾਮ ਸਿਉ ਨਾ ਦਿਨ ਮਿਲੇ ਨ ਰਾਤਿ ॥੧੨੫॥
ویسے جو انسان رب سے بچھڑ جائے، وہ نہ دن کو ملتا ہے، نہ رات کو۔ 125۔
ਕਬੀਰ ਰੈਨਾਇਰ ਬਿਛੋਰਿਆ ਰਹੁ ਰੇ ਸੰਖ ਮਝੂਰਿ ॥
کبیر جی کہتے ہیں کہ سمندر میں بچھڑے ہوئے شنکھ ، تم سمندر میں رہو تمہارے لیے بہتر ہے۔
ਦੇਵਲ ਦੇਵਲ ਧਾਹੜੀ ਦੇਸਹਿ ਉਗਵਤ ਸੂਰ ॥੧੨੬॥
تو وہیں رہ، ورنہ سورج نکلتے ہی تجھے مندروں میں بجا بجا کر رُلایا جائے گا۔ 126
ਕਬੀਰ ਸੂਤਾ ਕਿਆ ਕਰਹਿ ਜਾਗੁ ਰੋਇ ਭੈ ਦੁਖ ॥
کبیر جی نصیحت کرتے ہیں۔ اے انسان! کیوں غفلت کی نیند سو رہا ہے؟ جاگ، اور موت کے ڈر و دکھ سے ہوشیار ہو جا۔
ਜਾ ਕਾ ਬਾਸਾ ਗੋਰ ਮਹਿ ਸੋ ਕਿਉ ਸੋਵੈ ਸੁਖ ॥੧੨੭॥
جس جسم کا ٹھکانہ قبر میں ہے، وہ کیسے چین کی نیند سو سکتا ہے؟ 127۔
ਕਬੀਰ ਸੂਤਾ ਕਿਆ ਕਰਹਿ ਉਠਿ ਕਿ ਨ ਜਪਹਿ ਮੁਰਾਰਿ ॥
کبیر جی نصیحت کرتے ہیں۔ اے انسان! کیوں سوتا ہے؟ اُٹھ، اور رب "مراری" کا دھیان کر،
ਇਕ ਦਿਨ ਸੋਵਨੁ ਹੋਇਗੋ ਲਾਂਬੇ ਗੋਡ ਪਸਾਰਿ ॥੧੨੮॥
ایک دن آئے گا کہ تجھے ٹانگیں پھیلا کر لمبی نیند سونا ہوگا۔ 128
ਕਬੀਰ ਸੂਤਾ ਕਿਆ ਕਰਹਿ ਬੈਠਾ ਰਹੁ ਅਰੁ ਜਾਗੁ ॥
کبیر جی کہتے ہیں کہ اے انسان! تو کیوں سوکر وقت برباد کررہا ہے؟ بیٹھ جا، اور جاگ جا۔
ਜਾ ਕੇ ਸੰਗ ਤੇ ਬੀਛੁਰਾ ਤਾ ਹੀ ਕੇ ਸੰਗਿ ਲਾਗੁ ॥੧੨੯॥
جس رب سے بچھڑ گیا ہے، اُسی سے دوبارہ جُڑ جا۔ 126۔
ਕਬੀਰ ਸੰਤ ਕੀ ਗੈਲ ਨ ਛੋਡੀਐ ਮਾਰਗਿ ਲਾਗਾ ਜਾਉ ॥
کبیر کہتے ہیں: صادقوں کی رہ نہ چھوڑو، اُن کے راستے پر لگے رہو،
ਪੇਖਤ ਹੀ ਪੁੰਨੀਤ ਹੋਇ ਭੇਟਤ ਜਪੀਐ ਨਾਉ ॥੧੩੦॥
کیونکہ اُن کے دیدار سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، اور اُن سے مل کر رب کا نام جپا جاتا ہے۔ 130
ਕਬੀਰ ਸਾਕਤ ਸੰਗੁ ਨ ਕੀਜੀਐ ਦੂਰਹਿ ਜਾਈਐ ਭਾਗਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: بدکرداروں کی صحبت نہ کرو اُن سے دور ہی رہو،
ਬਾਸਨੁ ਕਾਰੋ ਪਰਸੀਐ ਤਉ ਕਛੁ ਲਾਗੈ ਦਾਗੁ ॥੧੩੧॥
کیونکہ جیسے کالے برتن کو چھونے سے داغ لگتا ہے،۔ویسے ہی برے لوگوں کی صحبت بھی دھبہ لگا دیتی ہے۔ 131
ਕਬੀਰਾ ਰਾਮੁ ਨ ਚੇਤਿਓ ਜਰਾ ਪਹੂੰਚਿਓ ਆਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: رب کا ذکر نہ کیا اور بڑھاپا آ پہنچا،
ਲਾਗੀ ਮੰਦਿਰ ਦੁਆਰ ਤੇ ਅਬ ਕਿਆ ਕਾਢਿਆ ਜਾਇ ॥੧੩੨॥
اب جسمانی مندر کے دروازے پر آگ لگی ہے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں۔ 132۔
ਕਬੀਰ ਕਾਰਨੁ ਸੋ ਭਇਓ ਜੋ ਕੀਨੋ ਕਰਤਾਰਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: جو کچھ ہوتا ہے، وہ رب ہی کرتا ہے،
ਤਿਸੁ ਬਿਨੁ ਦੂਸਰੁ ਕੋ ਨਹੀ ਏਕੈ ਸਿਰਜਨਹਾਰੁ ॥੧੩੩॥
اُس کے سوا کوئی اور نہیں، وہی ایک پیدا کرنے والا ہے۔ 133
ਕਬੀਰ ਫਲ ਲਾਗੇ ਫਲਨਿ ਪਾਕਨਿ ਲਾਗੇ ਆਂਬ ॥
کبیر کہتے ہیں: جیسے آم کے درخت پر پھل لگتے ہیں اور وہ پکنے لگتے ہیں، ویسے ہی انسان کا جنم ہوتا ہے اور عمر مکمل ہونے لگتی ہے۔
ਜਾਇ ਪਹੂਚਹਿ ਖਸਮ ਕਉ ਜਉ ਬੀਚਿ ਨ ਖਾਹੀ ਕਾਂਬ ॥੧੩੪॥
اور جو پھل داغ دار نہ ہوں، وہی مالک رب تک پہنچتے ہیں، جو گناہوں سے داغ دار ہوں، وہ دوبارہ پیدائشوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ 134۔
ਕਬੀਰ ਠਾਕੁਰੁ ਪੂਜਹਿ ਮੋਲਿ ਲੇ ਮਨਹਠਿ ਤੀਰਥ ਜਾਹਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: لوگ پیسہ دے کر مورتیاں پوجتے ہیں، اور زبردستی تیرتھوں پر جاتے ہیں
ਦੇਖਾ ਦੇਖੀ ਸ੍ਵਾਂਗੁ ਧਰਿ ਭੂਲੇ ਭਟਕਾ ਖਾਹਿ ॥੧੩੫॥
مگر یہ سب دکھاوا ہے یہ لوگ بھٹک کر راہِ حق سے دور ہو جاتے ہیں۔ 135
ਕਬੀਰ ਪਾਹਨੁ ਪਰਮੇਸੁਰੁ ਕੀਆ ਪੂਜੈ ਸਭੁ ਸੰਸਾਰੁ ॥
کبیر جی مورتی پوجا پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتنی افسوس کی بات ہے۔) دنیا پتھر کو ہی رب مان کر اُس کی پوجا کر رہی ہے؛ لیکن
ਇਸ ਭਰਵਾਸੇ ਜੋ ਰਹੇ ਬੂਡੇ ਕਾਲੀ ਧਾਰ ॥੧੩੬॥
اور جو اس امید میں رہے گا کہ مورتیاں نجات دیں گی، وہ کال کی دھارا میں ڈوب جائے گا۔ 136
ਕਬੀਰ ਕਾਗਦ ਕੀ ਓਬਰੀ ਮਸੁ ਕੇ ਕਰਮ ਕਪਾਟ ॥
کبیر کہتے ہیں: ویدوں، شاستروں کی کوٹھری میں لوگ قید ہو گئے ہیں، جس کے دروازے پر رسومات کی چٹخنی لگی ہوئی ہے۔
ਪਾਹਨ ਬੋਰੀ ਪਿਰਥਮੀ ਪੰਡਿਤ ਪਾੜੀ ਬਾਟ ॥੧੩੭॥
مورتی پوجا نے دنیا کو ڈبو دیا، اور پنڈت دان و دَکشِنا کے چکر میں لوٹ رہے ہیں۔ 137
ਕਬੀਰ ਕਾਲਿ ਕਰੰਤਾ ਅਬਹਿ ਕਰੁ ਅਬ ਕਰਤਾ ਸੁਇ ਤਾਲ ॥
کبیر کہتے ہیں: جو کل کرنا ہے، وہ آج ہی کر لو اور جو آج کرنا ہے، وہ ابھی کر لو ۔
ਪਾਛੈ ਕਛੂ ਨ ਹੋਇਗਾ ਜਉ ਸਿਰ ਪਰਿ ਆਵੈ ਕਾਲੁ ॥੧੩੮॥
کیونکہ جب موت سر پر آ جائے، تب کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔ 138۔
ਕਬੀਰ ਐਸਾ ਜੰਤੁ ਇਕੁ ਦੇਖਿਆ ਜੈਸੀ ਧੋਈ ਲਾਖ ॥
کبیر کہتے ہیں: میں نے ایک ایسا دل نما انسان دیکھا ہے، جو باہر سے چمکتا ہے جیسے دھلی ہوئی لاکھ، مگر اندر سے سیاہ ہے۔
ਦੀਸੈ ਚੰਚਲੁ ਬਹੁ ਗੁਨਾ ਮਤਿ ਹੀਨਾ ਨਾਪਾਕ ॥੧੩੯॥
یہ دیکھنے میں بہت چنچل اور چالاک معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بے معنی اور ناپاک ہے۔ 136۔
ਕਬੀਰ ਮੇਰੀ ਬੁਧਿ ਕਉ ਜਮੁ ਨ ਕਰੈ ਤਿਸਕਾਰ ॥
کبیر کہتے ہیں: میری عقل ایسی ہے کہ اُسے ملک الموت بھی رد نہیں کرتا،
ਜਿਨਿ ਇਹੁ ਜਮੂਆ ਸਿਰਜਿਆ ਸੁ ਜਪਿਆ ਪਰਵਿਦਗਾਰ ॥੧੪੦॥
کیونکہ میں نے اُسی رب کا ذکر کیا ہے، جس نے ملک الموت کو بھی پیدا کیا ہے۔ 140۔
ਕਬੀਰੁ ਕਸਤੂਰੀ ਭਇਆ ਭਵਰ ਭਏ ਸਭ ਦਾਸ ॥
کبیر کہتے ہیں: رب کستوری کی مانند ہے اور اُس کے سب بھکت بھنوروں کی طرح ہے۔