Page 1372
ਜਿਉ ਜਿਉ ਭਗਤਿ ਕਬੀਰ ਕੀ ਤਿਉ ਤਿਉ ਰਾਮ ਨਿਵਾਸ ॥੧੪੧॥
ਕਬੀਰ ਗਹਗਚਿ ਪਰਿਓ ਕੁਟੰਬ ਕੈ ਕਾਂਠੈ ਰਹਿ ਗਇਓ ਰਾਮੁ ॥
کبیر کہتے ہیں: انسان ساری عمر بیوی، بچوں، خاندان میں الجھا رہا اور رب کا نام اس کے گلے میں ہی اٹک گیا۔
ਆਇ ਪਰੇ ਧਰਮ ਰਾਇ ਕੇ ਬੀਚਹਿ ਧੂਮਾ ਧਾਮ ॥੧੪੨॥
آخرکار وہ یم کے دربار میں پہنچا، اور شور و ہنگامے میں گم ہوگیا۔ 142
ਕਬੀਰ ਸਾਕਤ ਤੇ ਸੂਕਰ ਭਲਾ ਰਾਖੈ ਆਛਾ ਗਾਉ ॥
کبیر کہتے ہیں: دنیا دار شخص سے تو سور بہتر ہے، کیونکہ وہ گندگی کھا کر جگہ کو صاف رکھتا ہے۔
ਉਹੁ ਸਾਕਤੁ ਬਪੁਰਾ ਮਰਿ ਗਇਆ ਕੋਇ ਨ ਲੈਹੈ ਨਾਉ ॥੧੪੩॥
لیکن وہ دنیا دار انسان جب مر گیا، تو اُس کا نام تک کوئی لینے کو تیار نہ ہوا۔ 143
ਕਬੀਰ ਕਉਡੀ ਕਉਡੀ ਜੋਰਿ ਕੈ ਜੋਰੇ ਲਾਖ ਕਰੋਰਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: انسان ایک ایک پیسہ جوڑ کر لاکھوں کروڑوں جمع کرتا ہے۔
ਚਲਤੀ ਬਾਰ ਨ ਕਛੁ ਮਿਲਿਓ ਲਈ ਲੰਗੋਟੀ ਤੋਰਿ ॥੧੪੪॥
مگر جاتے وقت کچھ نہیں لے جاتا یہاں تک کہ لنگوٹی بھی چھین لی جاتی ہے۔ 144۔
ਕਬੀਰ ਬੈਸਨੋ ਹੂਆ ਤ ਕਿਆ ਭਇਆ ਮਾਲਾ ਮੇਲੀਂ ਚਾਰਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: اگر تو چار مالائیں پہن کر ویشنو بن گیا، تو کیا بڑا کام کیا؟
ਬਾਹਰਿ ਕੰਚਨੁ ਬਾਰਹਾ ਭੀਤਰਿ ਭਰੀ ਭੰਗਾਰ ॥੧੪੫॥
اگر باطن میں میل بھرا ہو، تو باہر سونا نظر آنا کس کام کا؟ 145
ਕਬੀਰ ਰੋੜਾ ਹੋਇ ਰਹੁ ਬਾਟ ਕਾ ਤਜਿ ਮਨ ਕਾ ਅਭਿਮਾਨੁ ॥
کبیر کہتے ہیں: اے انسان! اپنے دل کا غرور چھوڑ کر راستے کا پتھر بن جا جو سب کے گزرنے کا ذریعہ بن جائے۔
ਐਸਾ ਕੋਈ ਦਾਸੁ ਹੋਇ ਤਾਹਿ ਮਿਲੈ ਭਗਵਾਨੁ ॥੧੪੬॥
اگر کوئی ایسا محسن بھگت ہو تو ہی رب ملتا ہے۔
ਕਬੀਰ ਰੋੜਾ ਹੂਆ ਤ ਕਿਆ ਭਇਆ ਪੰਥੀ ਕਉ ਦੁਖੁ ਦੇਇ ॥
اس بات پر کبیر جی پھر کہتے ہیں کہ اگر راستے کا پتھر بن گئے ہو تو یہ کون سی بڑی بات ہے، کیونکہ وہ تو مسافر کے پیر کو چبھے گا اور تکلیف ہی دے گا۔
ਐਸਾ ਤੇਰਾ ਦਾਸੁ ਹੈ ਜਿਉ ਧਰਨੀ ਮਹਿ ਖੇਹ ॥੧੪੭॥
رب کا بھکت ایسا (نرم دل) ہونا چاہیے جیسے زمین کی مٹی ہوتی ہے۔ 147
ਕਬੀਰ ਖੇਹ ਹੂਈ ਤਉ ਕਿਆ ਭਇਆ ਜਉ ਉਡਿ ਲਾਗੈ ਅੰਗ ॥
کبیر کہتے ہیں: اگر مٹی بن بھی گئے، تو کیا فائدہ، اگر وہ اُڑ کر دوسروں کو گندا ہی کرے؟
ਹਰਿ ਜਨੁ ਐਸਾ ਚਾਹੀਐ ਜਿਉ ਪਾਨੀ ਸਰਬੰਗ ॥੧੪੮॥
رب کا بھکت ایسا ہو جیسے پانی جو ہر کسی میں گھل مل جائے۔ 148۔
ਕਬੀਰ ਪਾਨੀ ਹੂਆ ਤ ਕਿਆ ਭਇਆ ਸੀਰਾ ਤਾਤਾ ਹੋਇ ॥
کبیر جی تعلیم دیتے ہیں کہ اگر پانی بن کر بھی کبھی گرم، کبھی ٹھنڈا ہو جائے تو کیا فائدہ؟
ਹਰਿ ਜਨੁ ਐਸਾ ਚਾਹੀਐ ਜੈਸਾ ਹਰਿ ਹੀ ਹੋਇ ॥੧੪੯॥
رب کا بھکت تو ایسا ہونا چاہیے، جیسے خود رب کا روپ ہو جائے۔ 149
ਊਚ ਭਵਨ ਕਨਕਾਮਨੀ ਸਿਖਰਿ ਧਜਾ ਫਹਰਾਇ ॥
اگر اونچے محل ہوں، دولت و بیوی ہو، اور شہرت ہو،
ਤਾ ਤੇ ਭਲੀ ਮਧੂਕਰੀ ਸੰਤਸੰਗਿ ਗੁਨ ਗਾਇ ॥੧੫੦॥
تب بھی اُس سے بہتر ہے وہ فقیر ہے، جو تھوڑی سی بھیک لے کر صادقوں کی صحبت میں بیٹھے اور رب کے اوصاف کا ذکر کرے۔ 150۔
ਕਬੀਰ ਪਾਟਨ ਤੇ ਊਜਰੁ ਭਲਾ ਰਾਮ ਭਗਤ ਜਿਹ ਠਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: ایک ویران مقام جہاں رب کے بھکت رہتے ہوں، وہ بھرے پرے شہر سے بہتر ہے۔
ਰਾਮ ਸਨੇਹੀ ਬਾਹਰਾ ਜਮ ਪੁਰੁ ਮੇਰੇ ਭਾਂਇ ॥੧੫੧॥
کیونکہ جہاں رب کے پیار کرنے والے نہ ہوں، وہ جگہ میرے لیے جہنم ہے۔ 151۔
ਕਬੀਰ ਗੰਗ ਜਮੁਨ ਕੇ ਅੰਤਰੇ ਸਹਜ ਸੁੰਨ ਕੇ ਘਾਟ ॥
کبیر کہتے ہیں: میں نے گنگا اور جمنا (زندگی کی نڑیاں) کے درمیان سہج اور سنّ کے گھاٹ پر اپنا ڈیرہ لگایا ہے۔
ਤਹਾ ਕਬੀਰੈ ਮਟੁ ਕੀਆ ਖੋਜਤ ਮੁਨਿ ਜਨ ਬਾਟ ॥੧੫੨॥
جہاں کبیر نے اپنا آشرم بنایا ہے،۔اُس راستے کو تو رِشی منی بھی ڈھونڈتے ہیں۔ 152۔
ਕਬੀਰ ਜੈਸੀ ਉਪਜੀ ਪੇਡ ਤੇ ਜਉ ਤੈਸੀ ਨਿਬਹੈ ਓੜਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: جیسے پودا نرم ہوتا ہے،۔اگر ویسی ہی نرمی آخر تک باقی رہے، تو پھر
ਹੀਰਾ ਕਿਸ ਕਾ ਬਾਪੁਰਾ ਪੁਜਹਿ ਨ ਰਤਨ ਕਰੋੜਿ ॥੧੫੩॥
تو ہیرا بھی معمولی لگے گا اور کروڑوں رتن بھی اُس جیسا نہ ہو سکیں گے۔ 153
ਕਬੀਰਾ ਏਕੁ ਅਚੰਭਉ ਦੇਖਿਓ ਹੀਰਾ ਹਾਟ ਬਿਕਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: میں نے ایک عجیب بات دیکھی ایک قیمتی ہیرا بازار میں بکتا ہے،لیکن کیونکہ کوئی سچا جوہری نہیں،اس لیے لوگ اُسے کوڑیوں کے بھاؤ لے جاتے ہیں۔
ਬਨਜਨਹਾਰੇ ਬਾਹਰਾ ਕਉਡੀ ਬਦਲੈ ਜਾਇ ॥੧੫੪॥
یہ انسانی وجود ہیرے کی مانند قیمتی ہے، جو اسے رب کی بندگی میں استعمال نہیں کرتا، اسے دنیاوی کاموں میں ضائع کر دیتا ہے۔ 154۔
ਕਬੀਰਾ ਜਹਾ ਗਿਆਨੁ ਤਹ ਧਰਮੁ ਹੈ ਜਹਾ ਝੂਠੁ ਤਹ ਪਾਪੁ ॥
کبیر کہتے ہیں: جہاں علم ہوتا ہے، وہیں دھرم ہوتا ہے۔ جہاں جھوٹ ہو، وہاں پاپ بسیرا کرتا ہے۔
ਜਹਾ ਲੋਭੁ ਤਹ ਕਾਲੁ ਹੈ ਜਹਾ ਖਿਮਾ ਤਹ ਆਪਿ ॥੧੫੫॥
جہاں لالچ ہو، وہاں موت کھڑی رہتی ہے اور جہاں معافی ہو، وہاں خود رب ہوتا ہے۔ 155۔
ਕਬੀਰ ਮਾਇਆ ਤਜੀ ਤ ਕਿਆ ਭਇਆ ਜਉ ਮਾਨੁ ਤਜਿਆ ਨਹੀ ਜਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: اگر فخر و غرور کو نہیں چھوڑا تو پھر مایا کو چھوڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ਮਾਨ ਮੁਨੀ ਮੁਨਿਵਰ ਗਲੇ ਮਾਨੁ ਸਭੈ ਕਉ ਖਾਇ ॥੧੫੬॥
کیونکہ یہی غرور بڑے بڑے رشی منیوں کو بھی نگل گیا۔ 156
ਕਬੀਰ ਸਾਚਾ ਸਤਿਗੁਰੁ ਮੈ ਮਿਲਿਆ ਸਬਦੁ ਜੁ ਬਾਹਿਆ ਏਕੁ ॥
کبیر کہتے ہیں: جب مجھے سچا گرو ملا، تو اُس نے ایک ہی بات کی ایسی ضرب لگائی،
ਲਾਗਤ ਹੀ ਭੁਇ ਮਿਲਿ ਗਇਆ ਪਰਿਆ ਕਲੇਜੇ ਛੇਕੁ ॥੧੫੭॥
جس کے لگتے ہی دل زمین سے جالگا اور کلیجے میں اُس کا پیار پیوست ہو گیا۔ 157۔
ਕਬੀਰ ਸਾਚਾ ਸਤਿਗੁਰੁ ਕਿਆ ਕਰੈ ਜਉ ਸਿਖਾ ਮਹਿ ਚੂਕ ॥
کبیر کہتے ہیں: اگر سچے گرو کا شاگرد ہی خراب ہو،۔تو گرو کیا کر سکتا ہے؟
ਅੰਧੇ ਏਕ ਨ ਲਾਗਈ ਜਿਉ ਬਾਂਸੁ ਬਜਾਈਐ ਫੂਕ ॥੧੫੮॥
جاہل کو چاہے جتنی بھی تعلیم دی جائے، وہ ویسے ہی بے اثر رہتی ہے جیسے بانس کو پھونک مارنے سے آواز نہ نکلے۔ 158۔
ਕਬੀਰ ਹੈ ਗੈ ਬਾਹਨ ਸਘਨ ਘਨ ਛਤ੍ਰਪਤੀ ਕੀ ਨਾਰਿ ॥
کبیر جی نصیحت دیتے ہیں کہ۔ہاتھی، گھوڑے، رتھ اور دیگر عیش و آرام سے بھرپور کسی بڑے راجہ کی رانی