Guru Granth Sahib Translation Project

Guru Granth Sahib Urdu Page 1378

Page 1378

ਬੰਨ੍ਹ੍ਹਿ ਉਠਾਈ ਪੋਟਲੀ ਕਿਥੈ ਵੰਞਾ ਘਤਿ ॥੨॥ میں نے بھی دنیا والوں کی طرح اپنی گٹھری باندھ لی ہے، اب بتاؤ، اسے چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ 2
ਕਿਝੁ ਨ ਬੁਝੈ ਕਿਝੁ ਨ ਸੁਝੈ ਦੁਨੀਆ ਗੁਝੀ ਭਾਹਿ ॥ یہ دنیا چھپی ہوئی آگ ہے، جس میں کچھ سمجھ نہیں آتا۔
ਸਾਂਈਂ ਮੇਰੈ ਚੰਗਾ ਕੀਤਾ ਨਾਹੀ ਤ ਹੰ ਭੀ ਦਝਾਂ ਆਹਿ ॥੩॥ میرے مالک نے مجھ پر مہربانی کی، ورنہ میں بھی اس آگ میں جل جاتا 3۔
ਫਰੀਦਾ ਜੇ ਜਾਣਾ ਤਿਲ ਥੋੜੜੇ ਸੰਮਲਿ ਬੁਕੁ ਭਰੀ ॥ اے فرید! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ سانسیں تھوڑی ہیں، تو میں سنبھل کر، سمجھ کر زندگی گزارتا۔
ਜੇ ਜਾਣਾ ਸਹੁ ਨੰਢੜਾ ਤਾਂ ਥੋੜਾ ਮਾਣੁ ਕਰੀ ॥੪॥ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ میرا مالک بے پرواہ ہے، تو میں اُس کے آگے غرور نہ کرتا 4
ਜੇ ਜਾਣਾ ਲੜੁ ਛਿਜਣਾ ਪੀਡੀ ਪਾਈਂ ਗੰਢਿ ॥ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ محبت کا آنچل کمزور ہے، تو میں اُسے مضبوطی سے باندھ لیتا۔
ਤੈ ਜੇਵਡੁ ਮੈ ਨਾਹਿ ਕੋ ਸਭੁ ਜਗੁ ਡਿਠਾ ਹੰਢਿ ॥੫॥ اے سچے مالک! میں نے ساری دنیا گھوم کر دیکھ لی ہے، مگر تجھ جیسا کوئی بھی نظر نہیں آیا 5۔
ਫਰੀਦਾ ਜੇ ਤੂ ਅਕਲਿ ਲਤੀਫੁ ਕਾਲੇ ਲਿਖੁ ਨ ਲੇਖ ॥ فرید کہتے ہیں: اگر تُو واقعی عقل مند ہے، تو اپنے بُرے اعمالوں کا حساب مت لکھ ۔
ਆਪਨੜੇ ਗਿਰੀਵਾਨ ਮਹਿ ਸਿਰੁ ਨੀਵਾਂ ਕਰਿ ਦੇਖੁ ॥੬॥ بلکہ اپنے گریبان میں جھانک، اپنا سر جھکا کر دیکھ کہ تُو کیسا ہے۔ 6۔
ਫਰੀਦਾ ਜੋ ਤੈ ਮਾਰਨਿ ਮੁਕੀਆਂ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹਾ ਨ ਮਾਰੇ ਘੁੰਮਿ ॥ فرید جی عاجزی پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی تجھے تھپڑ مارے، تو پلٹ کر اُسے مت مار۔
ਆਪਨੜੈ ਘਰਿ ਜਾਈਐ ਪੈਰ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹਾ ਦੇ ਚੁੰਮਿ ॥੭॥ بلکہ اُس کے قدم چوم کر اپنے گھر واپس آجاؤ۔ 7۔
ਫਰੀਦਾ ਜਾਂ ਤਉ ਖਟਣ ਵੇਲ ਤਾਂ ਤੂ ਰਤਾ ਦੁਨੀ ਸਿਉ ॥ اے فرید! جب رب کے نام کی کمائی کا وقت تھا، تو تُو دنیا کی لذتوں میں مگن تھا۔
ਮਰਗ ਸਵਾਈ ਨੀਹਿ ਜਾਂ ਭਰਿਆ ਤਾਂ ਲਦਿਆ ॥੮॥ اب موت کا سفر قریب آ گیا ہے اور تُو گناہوں کا بوجھ اُٹھا کر چل پڑا ہے۔ 8۔
ਦੇਖੁ ਫਰੀਦਾ ਜੁ ਥੀਆ ਦਾੜੀ ਹੋਈ ਭੂਰ ॥ فرید کہتے ہیں: دیکھ، تیرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کالی داڑھی اب سفید ہو چکی ہے۔
ਅਗਹੁ ਨੇੜਾ ਆਇਆ ਪਿਛਾ ਰਹਿਆ ਦੂਰਿ ॥੯॥ آنے والی موت قریب آ گئی ہے اور گزری ہوئی زندگی دور ہوگئی ہے۔6۔
ਦੇਖੁ ਫਰੀਦਾ ਜਿ ਥੀਆ ਸਕਰ ਹੋਈ ਵਿਸੁ ॥ فرید دوبارہ سمجھاتے ہیں کہ دیکھ لو جو کبھی میٹھا لگتا تھا، اب بڑھاپے میں وہی زہر جیسا محسوس ہوتا ہے۔
ਸਾਂਈ ਬਾਝਹੁ ਆਪਣੇ ਵੇਦਣ ਕਹੀਐ ਕਿਸੁ ॥੧੦॥ اپنے مالک کے بغیر یہ درد کس سے بیان کیا جائے؟ 10۔
ਫਰੀਦਾ ਅਖੀ ਦੇਖਿ ਪਤੀਣੀਆਂ ਸੁਣਿ ਸੁਣਿ ਰੀਣੇ ਕੰਨ ॥ بڑھاپے کا حال بیان کرتے ہوئے فرید جی فرماتے ہیں کہ دیکھنے کی وجہ سے آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں (اب آنکھوں سے صاف نظر نہیں آتا) اور سن سن کر کان بھی بہرے ہوگئے ہیں (بڑھاپے کی وجہ سے سنائی بھی نہیں دیتا)۔
ਸਾਖ ਪਕੰਦੀ ਆਈਆ ਹੋਰ ਕਰੇਂਦੀ ਵੰਨ ॥੧੧॥ جوانی کے بعد یہ جسمانی کھیتی پک گئی ہے اور اس نے اب دوسرا ہی رنگ اختیار کر لیا ہے 11۔
ਫਰੀਦਾ ਕਾਲੀ ਜਿਨੀ ਨ ਰਾਵਿਆ ਧਉਲੀ ਰਾਵੈ ਕੋਇ ॥ گرو امرداس جی فرید جی کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ جس نے جوانی میں رب کا ذکر نہیں کیا، وہ بڑھاپے میں کیا ذکر کرے گا؟
ਕਰਿ ਸਾਂਈ ਸਿਉ ਪਿਰਹੜੀ ਰੰਗੁ ਨਵੇਲਾ ਹੋਇ ॥੧੨॥ اس لیے بہتر یہی ہے کہ رب سے محبت کرو، تبھی نیا رنگ پیدا ہوگا۔ 12
ਮਃ ੩ ॥ محلہ 3۔
ਫਰੀਦਾ ਕਾਲੀ ਧਉਲੀ ਸਾਹਿਬੁ ਸਦਾ ਹੈ ਜੇ ਕੋ ਚਿਤਿ ਕਰੇ ॥ گرو امرداس جی بابا فرید جی کی مذکورہ اشلوک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے فرید! اگر کوئی مالک کو یاد کرے، تو ہمیشہ یاد کرسکتا ہے۔ اس کے لیے جوانی یا بڑھاپے کی کوئی اہمیت نہیں۔
ਆਪਣਾ ਲਾਇਆ ਪਿਰਮੁ ਨ ਲਗਈ ਜੇ ਲੋਚੈ ਸਭੁ ਕੋਇ ॥ محبت اپنے زور سے نہیں لگتی، یہ تو رب کا عطا کردہ فضل ہے۔
ਏਹੁ ਪਿਰਮੁ ਪਿਆਲਾ ਖਸਮ ਕਾ ਜੈ ਭਾਵੈ ਤੈ ਦੇਇ ॥੧੩॥ یہ محبت کا جام صرف وہی مالک دیتا ہے،جسے وہ پسند کرے۔ 13
ਫਰੀਦਾ ਜਿਨ੍ਹ੍ਹ ਲੋਇਣ ਜਗੁ ਮੋਹਿਆ ਸੇ ਲੋਇਣ ਮੈ ਡਿਠੁ ॥ اے فرید! میں نے اُن آنکھوں کو بھی دیکھا، جنہوں نے دنیا کو فریب میں ڈالا تھا۔
ਕਜਲ ਰੇਖ ਨ ਸਹਦਿਆ ਸੇ ਪੰਖੀ ਸੂਇ ਬਹਿਠੁ ॥੧੪॥ جو کبھی سرمہ کی ایک لکیر بھی برداشت نہ کرتی تھیں، آج اُن پر پرندوں کے بچے بیٹھے ہیں 14
ਫਰੀਦਾ ਕੂਕੇਦਿਆ ਚਾਂਗੇਦਿਆ ਮਤੀ ਦੇਦਿਆ ਨਿਤ ॥ اے فرید! نیک لوگ روز پکار کر تعلیم دیتے ہوئے سمجھاتے ہیں، لیکن
ਜੋ ਸੈਤਾਨਿ ਵੰਞਾਇਆ ਸੇ ਕਿਤ ਫੇਰਹਿ ਚਿਤ ॥੧੫॥ لیکن جنہیں شیطان بہکا لے جائے، وہ نیکی کی طرف کیسے پلٹ سکتے ہیں؟ 15۔
ਫਰੀਦਾ ਥੀਉ ਪਵਾਹੀ ਦਭੁ ॥ بابا فرید کہتے ہیں: اگر تُو رب کو پانا چاہتا ہے،
ਜੇ ਸਾਂਈ ਲੋੜਹਿ ਸਭੁ ॥ تو راستے کے گھاس کی طرح عاجز ہوجاؤ۔
ਇਕੁ ਛਿਜਹਿ ਬਿਆ ਲਤਾੜੀਅਹਿ ॥ جو کبھی کٹتی ہے، کبھی پاؤں تلے روندی جاتی ہے۔
ਤਾਂ ਸਾਈ ਦੈ ਦਰਿ ਵਾੜੀਅਹਿ ॥੧੬॥ تبھی جا کر وہ گھاس رب کے دربار میں سجی جاتی ہے 16۔
ਫਰੀਦਾ ਖਾਕੁ ਨ ਨਿੰਦੀਐ ਖਾਕੂ ਜੇਡੁ ਨ ਕੋਇ ॥ فرید جی کہتے ہیں کہ مٹی کی بےعزتی نہ کرو، کیونکہ اِس جیسا کوئی کارآمد نہیں۔
ਜੀਵਦਿਆ ਪੈਰਾ ਤਲੈ ਮੁਇਆ ਉਪਰਿ ਹੋਇ ॥੧੭॥ یہ جیتے جی قدموں کے نیچے ہوتی ہے اور مرنے کے بعد سب کے اوپر آ جاتی ہے 17۔
ਫਰੀਦਾ ਜਾ ਲਬੁ ਤਾ ਨੇਹੁ ਕਿਆ ਲਬੁ ਤ ਕੂੜਾ ਨੇਹੁ ॥ فرید جی کہتے ہیں: جہاں لالچ ہے، وہاں محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ لالچ میں کی گئی محبت ہمیشہ جھوٹی نکلتی ہے۔
ਕਿਚਰੁ ਝਤਿ ਲਘਾਈਐ ਛਪਰਿ ਤੁਟੈ ਮੇਹੁ ॥੧੮॥ اگر چھپر ہی ٹوٹا ہوا ہو تو بارش کے دنوں میں وقت کیسے گزر سکتا ہے، اسی طرح لالچ میں محبت کبھی نہیں نبھائی جاسکتی۔ 18۔
ਫਰੀਦਾ ਜੰਗਲੁ ਜੰਗਲੁ ਕਿਆ ਭਵਹਿ ਵਣਿ ਕੰਡਾ ਮੋੜੇਹਿ ॥ فرید جی تعلیم دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے بھائی! تُو جنگل جنگل گھوم رہا ہے، درختوں کو روندتا پھرتا ہے۔
ਵਸੀ ਰਬੁ ਹਿਆਲੀਐ ਜੰਗਲੁ ਕਿਆ ਢੂਢੇਹਿ ॥੧੯॥ جبکہ رب تو تیرے دل میں بسا ہے، جنگل میں اُسے کیوں ڈھونڈتا ہے؟ 16۔
ਫਰੀਦਾ ਇਨੀ ਨਿਕੀ ਜੰਘੀਐ ਥਲ ਡੂੰਗਰ ਭਵਿਓਮ੍ਹ੍ਹਿ ॥ فرید کہتے ہیں: ان چھوٹی ٹانگوں سے میں جوانی میں میدانوں اور پہاڑوں میں گھوما کرتا تھا۔
ਅਜੁ ਫਰੀਦੈ ਕੂਜੜਾ ਸੈ ਕੋਹਾਂ ਥੀਓਮਿ ॥੨੦॥ لیکن اب بڑھاپے کی وجہ سے آج مجھے میں وضو کا لوٹا بھی سو کوس دور لگتا ہے۔ 20۔
ਫਰੀਦਾ ਰਾਤੀ ਵਡੀਆਂ ਧੁਖਿ ਧੁਖਿ ਉਠਨਿ ਪਾਸ ॥ فرید کہتے ہیں کہ اب راتیں لمبی ہوگئی ہیں اور بدن کا ہر جوڑ درد سے بھرا ہوا ہے۔


© 2025 SGGS ONLINE
error: Content is protected !!
Scroll to Top