Page 1290
ਇਸਤ੍ਰੀ ਪੁਰਖੈ ਜਾਂ ਨਿਸਿ ਮੇਲਾ ਓਥੈ ਮੰਧੁ ਕਮਾਹੀ ॥
جب رات کو مرد و عورت کا ملاپ ہوتا ہے تو وہ بھی گوشت ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔
ਮਾਸਹੁ ਨਿੰਮੇ ਮਾਸਹੁ ਜੰਮੇ ਹਮ ਮਾਸੈ ਕੇ ਭਾਂਡੇ ॥
ہم گوشت سے پیدا ہوتے ہیں، گوشت سے ہی پیدا کیے جاتے ہیں، اور ہمارا جسم بھی گوشت کا ہی بنا ہوا ہے۔
ਗਿਆਨੁ ਧਿਆਨੁ ਕਛੁ ਸੂਝੈ ਨਾਹੀ ਚਤੁਰੁ ਕਹਾਵੈ ਪਾਂਡੇ ॥
اے پنڈت! تم خود کو چالاک کہتے ہو، لیکن تمہیں نہ تو کوئی علم ہے نہ دھیان۔
ਬਾਹਰ ਕਾ ਮਾਸੁ ਮੰਦਾ ਸੁਆਮੀ ਘਰ ਕਾ ਮਾਸੁ ਚੰਗੇਰਾ ॥
باہر کے گوشت کو برا سمجھتے ہو اور گھر کے گوشت کو اچھا مانتے ہو۔
ਜੀਅ ਜੰਤ ਸਭਿ ਮਾਸਹੁ ਹੋਏ ਜੀਇ ਲਇਆ ਵਾਸੇਰਾ ॥
تمام جاندار گوشت سے ہی پیدا ہوئے ہیں اور جان بھی اسی جسم یعنی گوشت میں بسی ہوئی ہے۔
ਅਭਖੁ ਭਖਹਿ ਭਖੁ ਤਜਿ ਛੋਡਹਿ ਅੰਧੁ ਗੁਰੂ ਜਿਨ ਕੇਰਾ ॥
جن کا گرو اندھا ہے وہ حلال چھوڑ کر حرام کھاتے ہیں۔
ਮਾਸਹੁ ਨਿੰਮੇ ਮਾਸਹੁ ਜੰਮੇ ਹਮ ਮਾਸੈ ਕੇ ਭਾਂਡੇ ॥
ہم گوشت کے بنے ہوئے برتن ہیں، گوشت سے ہی بنے ہیں، گوشت سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔
ਗਿਆਨੁ ਧਿਆਨੁ ਕਛੁ ਸੂਝੈ ਨਾਹੀ ਚਤੁਰੁ ਕਹਾਵੈ ਪਾਂਡੇ ॥
تم خود کو عقلمند پنڈت کہتے ہو، لیکن تمہیں نہ علم ہے نہ سمجھ ۔
ਮਾਸੁ ਪੁਰਾਣੀ ਮਾਸੁ ਕਤੇਬੀ ਚਹੁ ਜੁਗਿ ਮਾਸੁ ਕਮਾਣਾ ॥
گوشت کا ذکر پرانوں میں ہے، گوشت کا ذکر کتابوں میں ہے، چاروں یگوں میں گوشت کھایا گیا ہے۔
ਜਜਿ ਕਾਜਿ ਵੀਆਹਿ ਸੁਹਾਵੈ ਓਥੈ ਮਾਸੁ ਸਮਾਣਾ ॥
یگیہ مذہبی رسومات اور شادیاں جہاں بھی ہوتی ہیں، وہاں گوشت کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔
ਇਸਤ੍ਰੀ ਪੁਰਖ ਨਿਪਜਹਿ ਮਾਸਹੁ ਪਾਤਿਸਾਹ ਸੁਲਤਾਨਾਂ ॥
مرد و عورت بادشاه و سلطان سبھی گوشت سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
ਜੇ ਓਇ ਦਿਸਹਿ ਨਰਕਿ ਜਾਂਦੇ ਤਾਂ ਉਨ੍ਹ੍ਹ ਕਾ ਦਾਨੁ ਨ ਲੈਣਾ ॥
اگر یہ سب لوگ دوزخ میں جاتے ہیں، تو پھر تمہیں ان سے کچھ بھی نہیں لینا چاہیے
ਦੇਂਦਾ ਨਰਕਿ ਸੁਰਗਿ ਲੈਦੇ ਦੇਖਹੁ ਏਹੁ ਧਿਙਾਣਾ ॥
یہ کیسا نرالا نظام ہے کہ دینے والا دوزخ میں جاتا ہےاور لینے والا جنت میں جاتا ہے۔
ਆਪਿ ਨ ਬੂਝੈ ਲੋਕ ਬੁਝਾਏ ਪਾਂਡੇ ਖਰਾ ਸਿਆਣਾ ॥
اے پنڈت! تم خود تو کچھ نہیں سمجھتے لیکن دوسروں کو سمجھاتے پھرتے ہو۔
ਪਾਂਡੇ ਤੂ ਜਾਣੈ ਹੀ ਨਾਹੀ ਕਿਥਹੁ ਮਾਸੁ ਉਪੰਨਾ ॥
اے پنڈت تمہیں تو یہ بھی علم نہیں کہ گوشت کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔
ਤੋਇਅਹੁ ਅੰਨੁ ਕਮਾਦੁ ਕਪਾਹਾਂ ਤੋਇਅਹੁ ਤ੍ਰਿਭਵਣੁ ਗੰਨਾ ॥
پانی سے ہی اناج، گنا، کپاس و غیره پیدا ہوتے ہیں اور پانی سے ہی تینوں لوک بنائے گئے ہیں۔
ਤੋਆ ਆਖੈ ਹਉ ਬਹੁ ਬਿਧਿ ਹਛਾ ਤੋਐ ਬਹੁਤੁ ਬਿਕਾਰਾ ॥
اگر یہ کہا جائے کہ پانی بہت پاکیزہ ہے تو جان لو کہ پانی میں بھی کئی خرابیاں ہوتی ہیں۔
ਏਤੇ ਰਸ ਛੋਡਿ ਹੋਵੈ ਸੰਨਿਆਸੀ ਨਾਨਕੁ ਕਹੈ ਵਿਚਾਰਾ ॥੨॥
اگر یہی سب ذائقے چھوڑ دیے جائیں، تب ہی کوئی سنیاسی کہلانے کے لائق بنتا ہے۔ نانک یہی سوچ اور سچ بیان کرتا ہے۔ 2۔
ਪਉੜੀ ॥
پؤڑی۔
ਹਉ ਕਿਆ ਆਖਾ ਇਕ ਜੀਭ ਤੇਰਾ ਅੰਤੁ ਨ ਕਿਨ ਹੀ ਪਾਇਆ ॥
میں کیا بیان کروں، میری تو صرف ایک زبان ہے تیرا کوئی بھی انتہا سمجھ نہیں سکا
ਸਚਾ ਸਬਦੁ ਵੀਚਾਰਿ ਸੇ ਤੁਝ ਹੀ ਮਾਹਿ ਸਮਾਇਆ ॥
جس نے تیرے سچے کلام پر غور کیا، وہ تجھ میں ہی جذب ہوگیا ہے۔
ਇਕਿ ਭਗਵਾ ਵੇਸੁ ਕਰਿ ਭਰਮਦੇ ਵਿਣੁ ਸਤਿਗੁਰ ਕਿਨੈ ਨ ਪਾਇਆ ॥
کچھ لوگ بھگوا لباس پہن کر بھٹکتے رہتے ہیں، لیکن بغیر سچے گرو کے تجھے کوئی نہیں پاسکا۔
ਦੇਸ ਦਿਸੰਤਰ ਭਵਿ ਥਕੇ ਤੁਧੁ ਅੰਦਰਿ ਆਪੁ ਲੁਕਾਇਆ ॥
وہ ملکوں اور دیشوں میں گھومتے ہوئے تھک جاتے ہیں، حالانکہ تو ان کے اپنے ہی اندر چھپا ہوا ہے۔
ਗੁਰ ਕਾ ਸਬਦੁ ਰਤੰਨੁ ਹੈ ਕਰਿ ਚਾਨਣੁ ਆਪਿ ਦਿਖਾਇਆ ॥
گرو کا کلام قیمتی موتی ہے، اس سے روشنی حاصل کر کے تو خود کو دکھاتا ہے۔
ਆਪਣਾ ਆਪੁ ਪਛਾਣਿਆ ਗੁਰਮਤੀ ਸਚਿ ਸਮਾਇਆ ॥
جو کوئی گرو کی تعلیم سے خود کو پہچانتا ہے، وہ سچ میں ہی سماتا ہے۔
ਆਵਾ ਗਉਣੁ ਬਜਾਰੀਆ ਬਾਜਾਰੁ ਜਿਨੀ ਰਚਾਇਆ ॥
بہت سے لوگ دکھاوے اور بہروپ سے بازار کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں۔
ਇਕੁ ਥਿਰੁ ਸਚਾ ਸਾਲਾਹਣਾ ਜਿਨ ਮਨਿ ਸਚਾ ਭਾਇਆ ॥੨੫॥
پر وہی ایک سچا اور قائم رب کی سچی ستائش کرتا ہے، جس کے دل کو وہ بھاتا ہے۔ 25۔
ਸਲੋਕ ਮਃ ੧ ॥
شلوک محلہ 1۔
ਨਾਨਕ ਮਾਇਆ ਕਰਮ ਬਿਰਖੁ ਫਲ ਅੰਮ੍ਰਿਤ ਫਲ ਵਿਸੁ ॥
نا نک فرماتے ہیں کہ یہ مایا ہی کرموں کا درخت ہے جس پر کبھی امرت کا پھل لگتا ہے اور کبھی زہر کا۔
ਸਭ ਕਾਰਣ ਕਰਤਾ ਕਰੇ ਜਿਸੁ ਖਵਾਲੇ ਤਿਸੁ ॥੧॥
جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب اسی رب کے حکم سے ہوتا ہے، وہ جس کو جو کھلائے، وہی کھانا پڑتا ہے۔ 1۔
ਮਃ ੨ ॥
محلہ 2۔
ਨਾਨਕ ਦੁਨੀਆ ਕੀਆਂ ਵਡਿਆਈਆਂ ਅਗੀ ਸੇਤੀ ਜਾਲਿ ॥
اے نانک! دنیا کی بڑائیاں آگ میں جلادینا چاہیے۔
ਏਨੀ ਜਲੀਈਂ ਨਾਮੁ ਵਿਸਾਰਿਆ ਇਕ ਨ ਚਲੀਆ ਨਾਲਿ ॥੨॥
یہ تمام بڑائیاں ایسی ہیں کہ جنہوں نے مالک کا نام بھلا دیا ہے، ان میں سے کوئی بھی ساتھ نہیں جاتی۔ 2۔
ਪਉੜੀ ॥
پؤڑی۔
ਸਿਰਿ ਸਿਰਿ ਹੋਇ ਨਿਬੇੜੁ ਹੁਕਮਿ ਚਲਾਇਆ ॥
دنیا مالک کے حکم سے چلتی ہے، ہر ایک کے عمل کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے۔
ਤੇਰੈ ਹਥਿ ਨਿਬੇੜੁ ਤੂਹੈ ਮਨਿ ਭਾਇਆ ॥
اے مالک فیصلہ تیرے ہی ہاتھ میں ہے، تو ہی دل کو بھاتا ہے۔
ਕਾਲੁ ਚਲਾਏ ਬੰਨਿ ਕੋਇ ਨ ਰਖਸੀ ॥
موت جب آئے گی تو کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔
ਜਰੁ ਜਰਵਾਣਾ ਕੰਨ੍ਹ੍ਹਿ ਚੜਿਆ ਨਚਸੀ ॥
بڑھاپا ظلم بن کر کندھے پر سوار ہوتا ہے اور انسان کو ناچاتا ہے۔
ਸਤਿਗੁਰੁ ਬੋਹਿਥੁ ਬੇੜੁ ਸਚਾ ਰਖਸੀ ॥
سچا گرو ہی اس دنیا کے سمندر کو پار کرنے والا جہاز ہے، اور وہی سچ کی راہ پر چلنے والے کی حفاظت کرتا ہے۔
ਅਗਨਿ ਭਖੈ ਭੜਹਾੜੁ ਅਨਦਿਨੁ ਭਖਸੀ ॥
برے اعمال کی آگ روزانہ انسان کو اندر سے جلاتی ہے۔
ਫਾਥਾ ਚੁਗੈ ਚੋਗ ਹੁਕਮੀ ਛੁਟਸੀ ॥
جو عملوں میں پھنسا ہوا ہے، وہ انہی کا نتیجہ بھگت رہا ہے، اور صرف رب ہی چھٹکارا دینے والا ہے
ਕਰਤਾ ਕਰੇ ਸੁ ਹੋਗੁ ਕੂੜੁ ਨਿਖੁਟਸੀ ॥੨੬॥
رب جو چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے، جھوٹ کا انجام فنا ہی ہوتا ہے۔ 26۔