Page 1243
ਲਿਖਿਆ ਹੋਵੈ ਨਾਨਕਾ ਕਰਤਾ ਕਰੇ ਸੁ ਹੋਇ ॥੧॥
نانک فرماتے ہیں کہ اگرچہ سب کچھ قسمت کے مطابق ہوتا ہے، مگر جو کچھ رب کرتا ہے، وہی درحقیقت ہوتا ہے۔ 1۔
ਮਃ ੧ ॥
محلہ 1۔
ਰੰਨਾ ਹੋਈਆ ਬੋਧੀਆ ਪੁਰਸ ਹੋਏ ਸਈਆਦ ॥
معصوم عورتیں کمزور ہوگئی ہیں اور چالاک مرد ظالم بن گئے ہیں (وہ مردوں کے ظلم اور ہوس کو برداشتکر رہی ہے۔)
ਸੀਲੁ ਸੰਜਮੁ ਸੁਚ ਭੰਨੀ ਖਾਣਾ ਖਾਜੁ ਅਹਾਜੁ ॥
شرم ضبط نفس اور پاکیزگی سب ختم ہو چکی ہیں، جائز و ناجائز بر چیز کھائی جا رہی ہے۔
ਸਰਮੁ ਗਇਆ ਘਰਿ ਆਪਣੈ ਪਤਿ ਉਠਿ ਚਲੀ ਨਾਲਿ ॥
شرم گھر سے رخصت ہو گئی ہے اور عزت بھی اس کے ساتھ چلی گئی ہے۔
ਨਾਨਕ ਸਚਾ ਏਕੁ ਹੈ ਅਉਰੁ ਨ ਸਚਾ ਭਾਲਿ ॥੨॥
گرو نانک کہتے ہیں کہ صرف رب ہی سچا ہے، باقی سب میں سچائی تلاش نہ کرو۔ 2۔
ਪਉੜੀ ॥
پؤڑی۔
ਬਾਹਰਿ ਭਸਮ ਲੇਪਨ ਕਰੇ ਅੰਤਰਿ ਗੁਬਾਰੀ ॥
وہ شخص جسم پر راکھ مل لیتا ہے، لیکن اندر سے غرور بھرا ہوتا ہے۔
ਖਿੰਥਾ ਝੋਲੀ ਬਹੁ ਭੇਖ ਕਰੇ ਦੁਰਮਤਿ ਅਹੰਕਾਰੀ ॥
وہ جھولی چادر اور مختلف فقیرانہ لباس پہن کر دکھاوا کرتا ہے، مگر اس کے اندر بری سوچ اور تکبر ہوتا ہے۔
ਸਾਹਿਬ ਸਬਦੁ ਨ ਊਚਰੈ ਮਾਇਆ ਮੋਹ ਪਸਾਰੀ ॥
وہ رب کا کلام زبان سے نہیں نکالتا، بلکہ دنیا کی محبت میں ڈوبا رہتا ہے۔
ਅੰਤਰਿ ਲਾਲਚੁ ਭਰਮੁ ਹੈ ਭਰਮੈ ਗਾਵਾਰੀ ॥
اس کے اندر لالچ اور بھٹکنے والا وہم ہوتا ہے، اور وہ ہے وقوفوں کی طرح بھٹکتا رہتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਨਾਮੁ ਨ ਚੇਤਈ ਜੂਐ ਬਾਜੀ ਹਾਰੀ ॥੧੪॥
اے نانک! وہ رب کا دھیان نہیں کرتا اور اپنی زندگی کی بازی جوئے میں ہار دیتا ہے۔ 14۔
ਸਲੋਕ ਮਃ ੧ ॥
شلوک محلہ 1۔
ਲਖ ਸਿਉ ਪ੍ਰੀਤਿ ਹੋਵੈ ਲਖ ਜੀਵਣੁ ਕਿਆ ਖੁਸੀਆ ਕਿਆ ਚਾਉ ॥
چاہے کسی سے لاکھ محبت ہو، چاہے عمر لاکھ برس کی ہو، ان سب خوشیوں اور جوش کا کیا فائدہ؟
ਵਿਛੁੜਿਆ ਵਿਸੁ ਹੋਇ ਵਿਛੋੜਾ ਏਕ ਘੜੀ ਮਹਿ ਜਾਇ ॥
اگر جدائی ہو جائے تو وہ زہر بن جاتی ہے، اور ایک گھڑی میں سب کچھ چھن جاتا ہے۔
ਜੇ ਸਉ ਵਰ੍ਹਿਆ ਮਿਠਾ ਖਾਜੈ ਭੀ ਫਿਰਿ ਕਉੜਾ ਖਾਇ ॥
چاہے انسان سو برس تک مٹھاس میں جیتا رہے آخر کار کڑواہٹ ہی چکھنی پڑتی ہے۔
ਮਿਠਾ ਖਾਧਾ ਚਿਤਿ ਨ ਆਵੈ ਕਉੜਤਣੁ ਧਾਇ ਜਾਇ ॥
جو کچھ میٹھا کھایا ہو، وہ یاد نہیں رہتا، مگر کڑواہٹ ہر وقت ذہن میں چھائی رہتی ہے۔
ਮਿਠਾ ਕਉੜਾ ਦੋਵੈ ਰੋਗ ॥
میٹھا اور کڑوا دونوں ہی در حقیقت روحانی بیماریاں ہیں۔
ਨਾਨਕ ਅੰਤਿ ਵਿਗੁਤੇ ਭੋਗ ॥
اے نانک! انجام میں ان لذتوں سے صرف پریشانی ہی حاصل ہوتی ہے
ਝਖਿ ਝਖਿ ਝਖਣਾ ਝਗੜਾ ਝਾਖ ॥
,یہ سب لا حاصل مشقت فضول کام اور بیکار جھگڑوں کا سلسلہ ہے۔
ਝਖਿ ਝਖਿ ਜਾਹਿ ਝਖਹਿ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹ ਪਾਸਿ ॥੧॥
پھر بھی لوگ انہی فضول چیزوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور انہیں ہی سنبھال کر رکھتے ہیں۔ 1۔
ਮਃ ੧ ॥
محلہ 1۔
ਕਾਪੜੁ ਕਾਠੁ ਰੰਗਾਇਆ ਰਾਂਗਿ ॥
لوگ کپڑے اور لکڑی کی چیزوں کو مختلف رنگوں سے رنگتے ہیں۔
ਘਰ ਗਚ ਕੀਤੇ ਬਾਗੇ ਬਾਗ ॥
اپنے گھروں کو سفیدی کر کے خوبصورت بناتے ہیں۔
ਸਾਦ ਸਹਜ ਕਰਿ ਮਨੁ ਖੇਲਾਇਆ ॥
لطف اور سکون کا سامان پیدا کر کے دل کو کھیل میں لگاتے ہیں اور
ਤੈ ਸਹ ਪਾਸਹੁ ਕਹਣੁ ਕਹਾਇਆ ॥
مالک کی طرف سے ڈانٹ پڑتی ہے۔
ਮਿਠਾ ਕਰਿ ਕੈ ਕਉੜਾ ਖਾਇਆ ॥
برے کاموں کی کڑواہٹ کو میٹھا سمجھ کر کھاتے ہیں۔
ਤਿਨਿ ਕਉੜੈ ਤਨਿ ਰੋਗੁ ਜਮਾਇਆ ॥
یہ کڑواہٹ ان کے جسم میں بیماری پیدا کردیتی ہے۔
ਜੇ ਫਿਰਿ ਮਿਠਾ ਪੇੜੈ ਪਾਇ ॥
اے ماں! اگر کوئی دوبارہ رب کے نام میں دلچسپی لے۔
ਤਉ ਕਉੜਤਣੁ ਚੂਕਸਿ ਮਾਇ ॥
تو (مایا کی) یہ کڑواہٹ دور ہوجاتی ہے۔
ਨਾਨਕ ਗੁਰਮੁਖਿ ਪਾਵੈ ਸੋਇ ॥
گرو نانک فرماتے ہیں: گرو سے سچائی کو وہی پاتا ہے۔
ਜਿਸ ਨੋ ਪ੍ਰਾਪਤਿ ਲਿਖਿਆ ਹੋਇ ॥੨॥
جس کے مقدر میں وہ لکھا گیا ہوتا ہے۔
ਪਉੜੀ ॥
پؤڑی۔
ਜਿਨ ਕੈ ਹਿਰਦੈ ਮੈਲੁ ਕਪਟੁ ਹੈ ਬਾਹਰੁ ਧੋਵਾਇਆ ॥
جن کے دل میں میل اور فریب ہوتا ہے، وہ صرف باہر سے صاف نظر آتے ہیں۔
ਕੂੜੁ ਕਪਟੁ ਕਮਾਵਦੇ ਕੂੜੁ ਪਰਗਟੀ ਆਇਆ ॥
وہ جھوٹ اور دغا بازی کرتے ہیں، لیکن ان کا جھوٹ ظاہر ہو جاتا ہے۔
ਅੰਦਰਿ ਹੋਇ ਸੁ ਨਿਕਲੈ ਨਹ ਛਪੈ ਛਪਾਇਆ ॥
دل میں جو ہوتا ہے وہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے، وہ چھپ نہیں سکتا۔
ਕੂੜੈ ਲਾਲਚਿ ਲਗਿਆ ਫਿਰਿ ਜੂਨੀ ਪਾਇਆ ॥
جو لوگ جھوٹ اور لالچ میں مبتلا رہتے ہیں، وہ دوباره جنم چکر میں پڑتے ہیں۔
ਨਾਨਕ ਜੋ ਬੀਜੈ ਸੋ ਖਾਵਣਾ ਕਰਤੈ ਲਿਖਿ ਪਾਇਆ ॥੧੫॥
اے نانک! جو جیسا ہوتا ہے، وہی پھل پاتا ہے، رب کا یہی قانون ہے۔ 15۔
ਸਲੋਕ ਮਃ ੨ ॥
شلوک محلہ 2۔
ਕਥਾ ਕਹਾਣੀ ਬੇਦੀ ਆਣੀ ਪਾਪੁ ਪੁੰਨੁ ਬੀਚਾਰੁ ॥
ویدوں کی کہانیاں نیکی و بدی کی باتیں کرتی ہیں۔
ਦੇ ਦੇ ਲੈਣਾ ਲੈ ਲੈ ਦੇਣਾ ਨਰਕਿ ਸੁਰਗਿ ਅਵਤਾਰ ॥
وہ کہتے ہیں کہ دینا اور لینا ہی عمل ہے، جس کا نتیجہ جنت یا جہنم میں جنم لینا ہے۔
ਉਤਮ ਮਧਿਮ ਜਾਤੀਂ ਜਿਨਸੀ ਭਰਮਿ ਭਵੈ ਸੰਸਾਰੁ ॥
ان کے مطابق اعلیٰ یا ادنی ذات کے لوگ بھی اسی بهرم میں دنیا میں بھٹکتے رہتے ہیں۔
ਅੰਮ੍ਰਿਤ ਬਾਣੀ ਤਤੁ ਵਖਾਣੀ ਗਿਆਨ ਧਿਆਨ ਵਿਚਿ ਆਈ ॥
لیکن گرو کی بانی اصل حقیقت بیان کرتی ہے، جو گیان اور دھیان کی حالت میں حاصل ہوتی ہے۔
ਗੁਰਮੁਖਿ ਆਖੀ ਗੁਰਮੁਖਿ ਜਾਤੀ ਸੁਰਤੀ ਕਰਮਿ ਧਿਆਈ ॥
گرو کے ذریعے کہی گئی بات کو گرو کے راستے پر چلنے والا ہی جانتا ہے اور اسے رب کی مہربانی سے سوجھ آتی ہے۔
ਹੁਕਮੁ ਸਾਜਿ ਹੁਕਮੈ ਵਿਚਿ ਰਖੈ ਹੁਕਮੈ ਅੰਦਰਿ ਵੇਖੈ ॥
رب نے خود حکم بنایا، اسی کے مطابق سب کچھ قائم رکھا اور اسی حکم کے اندر سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
ਨਾਨਕ ਅਗਹੁ ਹਉਮੈ ਤੁਟੈ ਤਾਂ ਕੋ ਲਿਖੀਐ ਲੇਖੈ ॥੧॥
اے نانک! جب تک انسان کا انا ختم نہ ہو، تب تک اسے نئی تقدیر نصیب نہیں ہوتی ہے۔ 1۔
ਮਃ ੧ ॥
محلہ 1۔
ਬੇਦੁ ਪੁਕਾਰੇ ਪੁੰਨੁ ਪਾਪੁ ਸੁਰਗ ਨਰਕ ਕਾ ਬੀਉ ॥
وید اعلان کرتے ہیں کہ جنت اور دوزخ کا بیج نیکی و بدی ہی ہے۔
ਜੋ ਬੀਜੈ ਸੋ ਉਗਵੈ ਖਾਂਦਾ ਜਾਣੈ ਜੀਉ ॥
جو بھی بیجتا ہے، وہی اگتا ہے، انسان وہی پھل کھاتا ہے۔
ਗਿਆਨੁ ਸਲਾਹੇ ਵਡਾ ਕਰਿ ਸਚੋ ਸਚਾ ਨਾਉ ॥
صاحب علم رب کو سب سے عظیم مان کر اس کی حمد کرتے ہیں، کیونکہ اس کا نام سچا اور دائمی ہے۔
ਸਚੁ ਬੀਜੈ ਸਚੁ ਉਗਵੈ ਦਰਗਹ ਪਾਈਐ ਥਾਉ ॥
جو سچ بولتا ہے وہی سچ اگاتا ہے اور رب کے دربار میں مقام پاتا ہے۔