Page 894
ਸੁੰਨ ਸਮਾਧਿ ਗੁਫਾ ਤਹ ਆਸਨੁ ॥
جس غار میں ان کی نشست گاہ ہے، وہ وہاں مراقبے کی اعلیٰ حالت میں مصروفف ہے۔
ਕੇਵਲ ਬ੍ਰਹਮ ਪੂਰਨ ਤਹ ਬਾਸਨੁ ॥
وہاں پر صرف کامل برہما ہی رہتے ہیں۔
ਭਗਤ ਸੰਗਿ ਪ੍ਰਭੁ ਗੋਸਟਿ ਕਰਤ ॥
وہاں پر رب اپنے پرستاروں کے ساتھ محفل لگاتا ہے۔
ਤਹ ਹਰਖ ਨ ਸੋਗ ਨ ਜਨਮ ਨ ਮਰਤ ॥੩॥
وہاں نہ کوئی خوشی ہے، نہ کوئی غم ہے اور نہ ہی پیدائش و موت کا بندھن ہے۔ 3۔
ਕਰਿ ਕਿਰਪਾ ਜਿਸੁ ਆਪਿ ਦਿਵਾਇਆ ॥
رب نے فضل فرماکر جسے خود عطا کیا ہے،
ਸਾਧਸੰਗਿ ਤਿਨਿ ਹਰਿ ਧਨੁ ਪਾਇਆ ॥
اسی نے سادھؤں کی صحبت میں ہری دولت کو حاصل کیا ہے۔
ਦਇਆਲ ਪੁਰਖ ਨਾਨਕ ਅਰਦਾਸਿ ॥
اے رحیم ہستی! نانک کی تجھ سے التجا ہے کہ
ਹਰਿ ਮੇਰੀ ਵਰਤਣਿ ਹਰਿ ਮੇਰੀ ਰਾਸਿ ॥੪॥੨੪॥੩੫॥
ہری نام ہی میری زندگی کا طرز عمل اور زندگی کا پھل ہے۔ 4۔ 24۔ 35۔
ਰਾਮਕਲੀ ਮਹਲਾ ੫ ॥
رام کلی محلہ 5۔
ਮਹਿਮਾ ਨ ਜਾਨਹਿ ਬੇਦ ॥
وید بھی اس کی شان سے ناواقف ہے۔
ਬ੍ਰਹਮੇ ਨਹੀ ਜਾਨਹਿ ਭੇਦ ॥
برہما بھی اس کا راز نہیں جانتا،
ਅਵਤਾਰ ਨ ਜਾਨਹਿ ਅੰਤੁ ॥
بڑے بڑے رشی منی بھی اس کی انتہا سے ناواقف ہے۔
ਪਰਮੇਸਰੁ ਪਾਰਬ੍ਰਹਮ ਬੇਅੰਤੁ ॥੧॥
چوں کہ پربرہما رب بے حد و شما ہے۔ 1۔
ਅਪਨੀ ਗਤਿ ਆਪਿ ਜਾਨੈ ॥
وہ اپنی رفتار سے خود ہی واقف ہے،
ਸੁਣਿ ਸੁਣਿ ਅਵਰ ਵਖਾਨੈ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
دوسرے لوگ اسے سن کر اسے بیان کرتے ہیں۔ 1۔ وقفہ۔
ਸੰਕਰਾ ਨਹੀ ਜਾਨਹਿ ਭੇਵ ॥
شیوشنکر اس کا راز نہیں جانتے،
ਖੋਜਤ ਹਾਰੇ ਦੇਵ ॥
بڑے بڑے دیوتا بھی تلاش و جستجو کرکے ہار گئے۔
ਦੇਵੀਆ ਨਹੀ ਜਾਨੈ ਮਰਮ ॥
دیویاں بھی اس کی راہ سے ناواقف ہیں،
ਸਭ ਊਪਰਿ ਅਲਖ ਪਾਰਬ੍ਰਹਮ ॥੨॥
کیوں کہ سب سے اوپر غیرمرئی پربرہما ہے۔ 2۔
ਅਪਨੈ ਰੰਗਿ ਕਰਤਾ ਕੇਲ ॥
وہ خود ہی اپنے رنگوں میں کھیلتا ہے،
ਆਪਿ ਬਿਛੋਰੈ ਆਪੇ ਮੇਲ ॥
وہ خود ہی کسی کو جدا کرتا ہے اور کسی کو جوڑ دیتا ہے۔
ਇਕਿ ਭਰਮੇ ਇਕਿ ਭਗਤੀ ਲਾਏ ॥
کچھ لوگ اس کی مرضی سے بھٹکتے رہتے ہیں اور اس نے کچھ لوگوں کو بندگی میں لگایا ہوا ہے۔
ਅਪਣਾ ਕੀਆ ਆਪਿ ਜਣਾਏ ॥੩॥
وہ اپنے دنیوی معاملات سے خود واقف ہے۔ 3۔
ਸੰਤਨ ਕੀ ਸੁਣਿ ਸਾਚੀ ਸਾਖੀ ॥
سنتوں کی سچی تعلیمات سنو،
ਸੋ ਬੋਲਹਿ ਜੋ ਪੇਖਹਿ ਆਖੀ ॥
وہ وہی بولتے ہیں، جو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
ਨਹੀ ਲੇਪੁ ਤਿਸੁ ਪੁੰਨਿ ਨ ਪਾਪਿ ॥
اسے گناہ اور نیکی کا کوئی لیپ نہیں لگتا،
ਨਾਨਕ ਕਾ ਪ੍ਰਭੁ ਆਪੇ ਆਪਿ ॥੪॥੨੫॥੩੬॥
نانک کا رب خود موجود ہے۔ 4۔ 25۔ 36۔
ਰਾਮਕਲੀ ਮਹਲਾ ੫ ॥
رام کلی محلہ 5۔
ਕਿਛਹੂ ਕਾਜੁ ਨ ਕੀਓ ਜਾਨਿ ॥
میں نے سوچ سمجھ کر کوئی نیک کام نہیں کیا،
ਸੁਰਤਿ ਮਤਿ ਨਾਹੀ ਕਿਛੁ ਗਿਆਨਿ ॥
میرے پاس حسن، ذہانت اور کوئی بھی علم نہیں۔ہے،
ਜਾਪ ਤਾਪ ਸੀਲ ਨਹੀ ਧਰਮ ॥
اور تو اور کوئی ذکر، مراقبہ، حیا اور مذہب بھی نہیں ہے۔
ਕਿਛੂ ਨ ਜਾਨਉ ਕੈਸਾ ਕਰਮ ॥੧॥
میں کچھ بھی نہیں جانتا کہ کون سا کام بہتر ہے۔ 1۔
ਠਾਕੁਰ ਪ੍ਰੀਤਮ ਪ੍ਰਭ ਮੇਰੇ ॥
اے آقا جی، اے میرے محبوب رب!
ਤੁਝ ਬਿਨੁ ਦੂਜਾ ਅਵਰੁ ਨ ਕੋਈ ਭੂਲਹ ਚੂਕਹ ਪ੍ਰਭ ਤੇਰੇ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
میرا تیرے بغیر دوسرا کوئی سہارا نہیں، اگر چہ بھول چوک کرتا رہتا ہوں، پھر بھی تیرا ہی حصہ ہوں۔ 1۔ وقفہ۔
ਰਿਧਿ ਨ ਬੁਧਿ ਨ ਸਿਧਿ ਪ੍ਰਗਾਸੁ ॥
نہ میرے پاس ردھیاں، سدھیاں ہیں اور نہ ہی علم کا نور ہے۔
ਬਿਖੈ ਬਿਆਧਿ ਕੇ ਗਾਵ ਮਹਿ ਬਾਸੁ ॥
میرا ٹھکانہ تو حسی خرابیوں اور امراض والے گاؤں میں ہے۔
ਕਰਣਹਾਰ ਮੇਰੇ ਪ੍ਰਭ ਏਕ ॥
اے میرے رب! ایک تو ہی سب کچھ کرنے پر قدرت رکھتا ہے اور
ਨਾਮ ਤੇਰੇ ਕੀ ਮਨ ਮਹਿ ਟੇਕ ॥੨॥
میرے دل میں تیرے ہی نام کا سہارا ہے۔ 2۔
ਸੁਣਿ ਸੁਣਿ ਜੀਵਉ ਮਨਿ ਇਹੁ ਬਿਸ੍ਰਾਮੁ ॥
اے رب! دل میں یہی خوشی ہے اور یہی سن کر زندہ ہوں کہ
ਪਾਪ ਖੰਡਨ ਪ੍ਰਭ ਤੇਰੋ ਨਾਮੁ ॥
تیرا نام تمام خطاؤں کو مٹانے والا ہے۔
ਤੂ ਅਗਨਤੁ ਜੀਅ ਕਾ ਦਾਤਾ ॥
تو بے شمار جانداروں کو عطا کرنے والا ہے،
ਜਿਸਹਿ ਜਣਾਵਹਿ ਤਿਨਿ ਤੂ ਜਾਤਾ ॥੩॥
جسے تو علم عطا کرتا ہے، وہ تیری شان کو سمجھ جاتا ہے۔ 3۔
ਜੋ ਉਪਾਇਓ ਤਿਸੁ ਤੇਰੀ ਆਸ ॥
تو نے جسے بھی پیدا کیا ہے، اسے تیری ہی امید ہے۔
ਸਗਲ ਅਰਾਧਹਿ ਪ੍ਰਭ ਗੁਣਤਾਸ ॥
تمام انسان خوبیوں کے ذخائر رب ہی کی بندگی کرتے ہیں۔
ਨਾਨਕ ਦਾਸ ਤੇਰੈ ਕੁਰਬਾਣੁ ॥ ਬੇਅੰਤ ਸਾਹਿਬੁ ਮੇਰਾ ਮਿਹਰਵਾਣੁ ॥੪॥੨੬॥੩੭॥
غلام نانک تجھ پر قربان جاتا ہے؛ چوں کہ میرا آقا بے پناہ اور سب پر مہربان ہے۔ 4۔ 26۔ 37۔
ਰਾਮਕਲੀ ਮਹਲਾ ੫ ॥
رام کلی محلہ 5۔
ਰਾਖਨਹਾਰ ਦਇਆਲ ॥
مہربان رب سب کا نگہبان ہے،
ਕੋਟਿ ਭਵ ਖੰਡੇ ਨਿਮਖ ਖਿਆਲ ॥
ایک لمحہ اس کا دھیان کرنے سے کروڑوں جنموں کا بندھن فنا ہوجاتا ہے۔
ਸਗਲ ਅਰਾਧਹਿ ਜੰਤ ॥ ਮਿਲੀਐ ਪ੍ਰਭ ਗੁਰ ਮਿਲਿ ਮੰਤ ॥੧॥
تمام ذی روح اسی کی بندگی کرتے ہیں۔ جسے گرو منتر مل جاتا ہے، وہ رب کو پالیتا ہے۔ 1۔
ਜੀਅਨ ਕੋ ਦਾਤਾ ਮੇਰਾ ਪ੍ਰਭੁ ॥
میرا رب تمام جانداروں کو عطا کرنے والا ہے
ਪੂਰਨ ਪਰਮੇਸੁਰ ਸੁਆਮੀ ਘਟਿ ਘਟਿ ਰਾਤਾ ਮੇਰਾ ਪ੍ਰਭੁ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
وہ کامل رب سب کا مالک ہر دل میں بسا ہوا ہے۔ 1۔ وقفہ۔
ਤਾ ਕੀ ਗਹੀ ਮਨ ਓਟ ॥
میرے دل نے اسی کی پناہ لی ہے،
ਬੰਧਨ ਤੇ ਹੋਈ ਛੋਟ ॥
جس سے تمام بندھنوں سے آزادی مل گئی ہے۔
ਹਿਰਦੈ ਜਪਿ ਪਰਮਾਨੰਦ ॥
اس روح اعلیٰ کا دل میں ذکر کرنے سے
ਮਨ ਮਾਹਿ ਭਏ ਅਨੰਦ ॥੨॥
من میں خوشی پیدا ہوگئی ہے۔ 2۔
ਤਾਰਣ ਤਰਣ ਹਰਿ ਸਰਣ ॥
واہے گرو کی پناہ دنیوی سمندر سے پار کروانے والا جہاز ہے۔
ਜੀਵਨ ਰੂਪ ਹਰਿ ਚਰਣ ॥
اس کے قدموں میں زندگی کا عطیہ ملتا ہے۔