Page 93
ਸ੍ਰੀਰਾਗ ਬਾਣੀ ਭਗਤ ਬੇਣੀ ਜੀਉ ਕੀ ॥ ਪਹਰਿਆ ਕੈ ਘਰਿ ਗਾਵਣਾ ॥ੴ ਸਤਿਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ॥ ਰੇ ਨਰ ਗਰਭ ਕੁੰਡਲ ਜਬ ਆਛਤ ਉਰਧ ਧਿਆਨ ਲਿਵ ਲਾਗਾ ॥ ਮਿਰਤਕ ਪਿੰਡਿ ਪਦ ਮਦ ਨਾ ਅਹਿਨਿਸਿ ਏਕੁ ਅਗਿਆਨ ਸੁ ਨਾਗਾ ॥ ਤੇ ਦਿਨ ਸੰਮਲੁ ਕਸਟ ਮਹਾ ਦੁਖ ਅਬ ਚਿਤੁ ਅਧਿਕ ਪਸਾਰਿਆ ॥ ਗਰਭ ਛੋਡਿ ਮ੍ਰਿਤ ਮੰਡਲ ਆਇਆ ਤਉ ਨਰਹਰਿ ਮਨਹੁ ਬਿਸਾਰਿਆ ॥੧॥ ਫਿਰਿ ਪਛੁਤਾਵਹਿਗਾ ਮੂੜਿਆ ਤੂੰ ਕਵਨ ਕੁਮਤਿ ਭ੍ਰਮਿ ਲਾਗਾ ॥ ਚੇਤਿ ਰਾਮੁ ਨਾਹੀ ਜਮ ਪੁਰਿ ਜਾਹਿਗਾ ਜਨੁ ਬਿਚਰੈ ਅਨਰਾਧਾ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ ਬਾਲ ਬਿਨੋਦ ਚਿੰਦ ਰਸ ਲਾਗਾ ਖਿਨੁ ਖਿਨੁ ਮੋਹਿ ਬਿਆਪੈ ॥ ਰਸੁ ਮਿਸੁ ਮੇਧੁ ਅੰਮ੍ਰਿਤੁ ਬਿਖੁ ਚਾਖੀ ਤਉ ਪੰਚ ਪ੍ਰਗਟ ਸੰਤਾਪੈ ॥ ਜਪੁ ਤਪੁ ਸੰਜਮੁ ਛੋਡਿ ਸੁਕ੍ਰਿਤ ਮਤਿ ਰਾਮ ਨਾਮੁ ਨ ਅਰਾਧਿਆ ॥ ਉਛਲਿਆ ਕਾਮੁ ਕਾਲ ਮਤਿ ਲਾਗੀ ਤਉ ਆਨਿ ਸਕਤਿ ਗਲਿ ਬਾਂਧਿਆ ॥੨॥ ਤਰੁਣ ਤੇਜੁ ਪਰ ਤ੍ਰਿਅ ਮੁਖੁ ਜੋਹਹਿ ਸਰੁ ਅਪਸਰੁ ਨ ਪਛਾਣਿਆ ॥ ਉਨਮਤ ਕਾਮਿ ਮਹਾ ਬਿਖੁ ਭੂਲੈ ਪਾਪੁ ਪੁੰਨੁ ਨ ਪਛਾਨਿਆ ॥ ਸੁਤ ਸੰਪਤਿ ਦੇਖਿ ਇਹੁ ਮਨੁ ਗਰਬਿਆ ਰਾਮੁ ਰਿਦੈ ਤੇ ਖੋਇਆ ॥ ਅਵਰ ਮਰਤ ਮਾਇਆ ਮਨੁ ਤੋਲੇ ਤਉ ਭਗ ਮੁਖਿ ਜਨਮੁ ਵਿਗੋਇਆ ॥੩॥ ਪੁੰਡਰ ਕੇਸ ਕੁਸਮ ਤੇ ਧਉਲੇ ਸਪਤ ਪਾਤਾਲ ਕੀ ਬਾਣੀ ॥ ਲੋਚਨ ਸ੍ਰਮਹਿ ਬੁਧਿ ਬਲ ਨਾਠੀ ਤਾ ਕਾਮੁ ਪਵਸਿ ਮਾਧਾਣੀ ॥ ਤਾ ਤੇ ਬਿਖੈ ਭਈ ਮਤਿ ਪਾਵਸਿ ਕਾਇਆ ਕਮਲੁ ਕੁਮਲਾਣਾ ॥ ਅਵਗਤਿ ਬਾਣਿ ਛੋਡਿ ਮ੍ਰਿਤ ਮੰਡਲਿ ਤਉ ਪਾਛੈ ਪਛੁਤਾਣਾ ॥੪॥ ਨਿਕੁਟੀ ਦੇਹ ਦੇਖਿ ਧੁਨਿ ਉਪਜੈ ਮਾਨ ਕਰਤ ਨਹੀ ਬੂਝੈ ॥ ਲਾਲਚੁ ਕਰੈ ਜੀਵਨ ਪਦ ਕਾਰਨ ਲੋਚਨ ਕਛੂ ਨ ਸੂਝੈ ॥ ਥਾਕਾ ਤੇਜੁ ਉਡਿਆ ਮਨੁ ਪੰਖੀ ਘਰਿ ਆਂਗਨਿ ਨ ਸੁਖਾਈ ॥ ਬੇਣੀ ਕਹੈ ਸੁਨਹੁ ਰੇ ਭਗਤਹੁ ਮਰਨ ਮੁਕਤਿ ਕਿਨਿ ਪਾਈ ॥੫॥
॥س٘ریِراگ بانھیِ بھگت بینھیِ جیِءُ کیِ
॥پہرِیا کےَ گھرِ گاۄنھا
॥ستِگُر پ٘رسادِ ੴ
॥رے نر گربھ کُنّڈل جب آچھت اُردھ دھِیان لِۄ لاگا
॥مِرتک پِنّڈِ پد مد نا اہِنِسِ ایکُ اگِیانُ سُ ناگا
॥تے دِن سنّملُ کسٹ مہا دُکھ اب چِتُ ادھِک پسارِیا
॥੧॥گربھ چھوڈِ م٘رِت منّڈل آئِیا تءُ نرہرِ منہُ بِسارِیا
॥پھِرِ پچھُتاۄہِگا موُڑِیا توُنّ کۄن کُمتِ بھ٘رمِ لاگا
॥੧॥ رہاءُ ॥چیتِ رامُ ناہیِ جم پُرِ جاہِگا جنُ بِچرےَ انرادھا
॥بال بِنود چِنّد رس لاگا کھِنُ کھِنُ موہِ بِیاپےَ
॥رسُ مِسُ میدھُ انّم٘رِتُ بِکھُ چاکھیِ تءُ پنّچ پ٘رگٹ سنّتاپےَ
॥جپُ تپُ سنّجمُ چھوڈِ سُک٘رِت متِ رام نامُ ن ارادھِیا
॥੨॥اُچھلِیا کامُ کال متِ لاگیِ تءُ آنِ سکتِ گلِ باںدھِیا
॥ترُنھ تیجُ پر ت٘رِء مُکھُ جوہہِ سرُ اپسرُ ن پچھانھِیا
॥اُنمت کامِ مہا بِکھُ بھوُلےَ پاپُ پُنّنُ ن پچھانِیا
॥سُت سنّپتِ دیکھِ اِہُ منُ گربِیا رامُ رِدےَ تے کھوئِیا
॥੩॥اۄر مرت مائِیا منُ تولے تءُ بھگ مُکھِ جنمُ ۄِگوئِیا
॥پُنّڈر کیس کُسم تے دھئُلے سپت پاتال کیِ بانھیِ
॥لوچن س٘رمہِ بُدھِ بل ناٹھیِ تا کامُ پۄسِ مادھانھیِ
॥تا تے بِکھےَ بھئیِ متِ پاۄسِ کائِیا کملُ کُملانھا
॥੪॥اۄگتِ بانھِ چھوڈِ م٘رِت منّڈلِ تءُ پاچھےَ پچھُتانھا
॥نِکُٹیِ دیہ دیکھِ دھُنِ اُپجےَ مان کرت نہیِ بوُجھےَ
॥لالچُ کرےَ جیِۄن پد کارن لوچن کچھوُ ن سوُجھےَ
॥تھاکا تیجُ اُڈِیا منُ پنّکھیِ گھرِ آݩگِن ن سُکھائیِ
॥੫॥بینھیِ کہےَ سُنہُ رے بھگتہُ مرن مُکتِ کِنِ پائیِ
لفظی معنی:۔ گربھ کُنڈل۔ پیٹ ۔ (2) اُردھ ۔ اُلٹا ۔ (2) آچھت ۔ ہوتا تھا (4) لِو ۔ ہوش ۔ (5) مِرتک پنڈ۔ میٹی کے گولے ۔(6) پد۔ہستی ۔ (7) مد۔ مستی ۔ تکبر ۔(8) اہِنِس ۔ دِن رات ۔ (9) اگیان ۔ لا عِلمی ۔ تے دِن سمل ۔ وہ دِن یاد کر ۔ کشٹ ۔ مہاں دُکھ ۔ اُس بھاری عذاب کو (۔3) ادھک ۔ بہُت زِیادہ ۔ (۔4) میرت منڈل ۔ اِس عالَم میں (۔5) لزہر۔ خُدا ۔ مُوڑھیا۔ اے جاہِل ۔ کون کُمت ۔ کونسی کم عقلی ۔ نادانی ۔بھرم ۔ شک ۔بُھول ۔ چیت۔ یاد کر ۔ ناہی ۔ ودنہ ۔ انرادھا ۔ ضِدی ۔ اونود۔ کھیل ۔ چند ۔دِھیان ۔ میدھ ۔ پاک ۔ (4) بِکھ ۔ زہر ۔ پرگٹ۔ ظاہر (6) ستاے ۔ تنگ کرنا (7) سنجم۔ جِسمانی ضبط ۔ کال۔ سیاہ ۔ نِرلج۔ بے حیا ۔ سُکرت مت۔ نیک خیال ۔ اچھی سمجھ ۔ (2) ترن۔ جوانی ۔ تیج۔ طاقت ۔ تریہ مُکھ۔ عورت کا مُنہ ۔ چہرہ ۔ جوہے طاقتا ہے ۔ سراپسر ۔ نیک و بد
ترجُمہ:اے اِنسان جب تُو ماں کے پیٹ میں تھا تب تیرا دِھیان خُدا میں تھا ۔ جِسمانی ہستی کا تُجھے غُرُور نہ تھا ۔ روز و شب باد خُدا میں مصرُوف تھا ۔ اور تُجھ میں لا عِلمی نہیں تھی ۔ وہ دِن یاد کر جب (ماں کے پیٹ میں ) بھاری عذاب اُٹھا رہا تھا ۔ مگر اب بہُت زِیادہ پھیلا رکھا ہے ۔ ماں کے پیٹ سے جب سے دُنیا میں آیا ہے ۔ اُسی وقت سے خُدا کو بُھلا رکھا ہے ۔۔
تُو کونسے وہم و گُمان اور بے سمجھی میں لگا ہُوا ہے ۔ اُسی وقت سے خُدا کو بُھلا رکھا ہے ۔ اے نادان پِھر پچھتائیگا ۔ خُدا کو یاد کر ورنہ دوزخ میں جانا ہوگا ۔ جیسے کوئی ضِدی پِھرتا ہے ۔پہلے پجپن کے کھیل کُود میں دِھیان لگاتا رہا اور اُسکا لُطف لیتا رہا ۔ اور پل پل اُسکی مُحبت میں گِرفتار رہا ۔ اب دُنیاوی دولت کو جو ایک زہر ہے اُسے آب حیات سمجھ کر اُسے نوش کرتا ہے ۔ تب تُو پانچوں خیالات بد۔ شہُوت ۔غُصہ ۔ لالچ ۔مُحبت اور تکبر میں مُلوِث ہے اور نیک خیالی ۔جپ تپ سنجم اور نیک اعمال اور سوچ چھوڑ دی ہے ۔ اور خُدا کو یاد نہیں کرتا ۔ اور شہُوت تیرے دِل میں ٹھاٹھنں مار رہی ہے ۔ اور بدیوں میں مصرُف ہے ۔ لِہذا اب شادی کروالی ۔ (2) جوانی کا جوش ہے بیگانی عورتوں کی طرف بُری نِگاہوں سے دیکھتا ہے ۔ نیک و بد وقت کا دِل میں خیال نہیں اور شہُوت میں مست ہے اے دولت کی بُھول میں مست اِنسان کیا تُجھے یہ سمجھ نہیں کہ اچھا کیا ہے ۔ بُرا کیا ۔ دولت اور اولاد کو دیکھ کر مغُرُور ہو رہا ہے ۔ اور خُدا کو دِل سے بُھلا بیٹھا ہے ۔ اور رِشتہ داروں کی موت پر دِل میں اندازے لگاتا ہے ۔ کہ میرے حِصے کِتنی دولت آئیگی ۔ زبان اور شہُوت کے لُطف میں اپنی زِندگی گنوا رہا ہے ۔(3)
اے اِنسان بال سُفید کنول کے پُھول سے بھی زِیادہ سُفید ہو گئے ہیں آواز مدھم ہو گئی ہے آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے دماغ میں شاطرانہ چالیں نہیں رہیں ۔ عقل کمزور پڑ گئی تب بھی شہُوت کی لہر تیرے دِل میں ہے ۔ تب بھی دِل میں بُرے خیالوں کی بارش ہو رہی ہے ۔ جِسم مُر جھا گیا ہے ۔ اِس عالَم میں آکے اِلہٰی صِفت صلاح چھوڑ رکھی ہے ۔ بعد میں پچھتائیگا ۔
چھوٹے چھوٹے بچے دیکھ کر دِل میں مُحبت پیدا ہوتی ہے غُرُور کرتا ہے مگر سمجھتا نہیں ۔ بینائی کمزور ہو چُکی ہے ۔ طاقت ختم ہو چُکی تاہم مزِید جِینے کا لالچ ہے ۔ رُوح پرواز کر نے پر لاش صحن میں پڑی اچھی نہیں لگتی ۔ بینی صاحِب فرماتے ہیں کہ اے پارساؤں ۔ اگر دوران حیات اگر یہی حال رہا تو مرنے کے بعد نِجات کا کیا فائِدہ اور کِسے مِلی ہے ۔
ਸਿਰੀਰਾਗੁ ॥ ਤੋਹੀ ਮੋਹੀ ਮੋਹੀ ਤੋਹੀ ਅੰਤਰੁ ਕੈਸਾ ॥ ਕਨਕ ਕਟਿਕ ਜਲ ਤਰੰਗ ਜੈਸਾ ॥੧॥ ਜਉ ਪੈ ਹਮ ਨ ਪਾਪ ਕਰੰਤਾ ਅਹੇ ਅਨੰਤਾ ॥ ਪਤਿਤ ਪਾਵਨ ਨਾਮੁ ਕੈਸੇ ਹੁੰਤਾ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ ਤੁਮ੍ਹ੍ਹ ਜੁ ਨਾਇਕ ਆਛਹੁ ਅੰਤਰਜਾਮੀ ॥ ਪ੍ਰਭ ਤੇ ਜਨੁ ਜਾਨੀਜੈ ਜਨ ਤੇ ਸੁਆਮੀ ॥੨॥ ਸਰੀਰੁ ਆਰਾਧੈ ਮੋ ਕਉ ਬੀਚਾਰੁ ਦੇਹੂ ॥ ਰਵਿਦਾਸ ਸਮ ਦਲ ਸਮਝਾਵੈ ਕੋਊ ॥੩॥
॥سِریِراگُ
॥توہیِ موہیِ موہیِ توہیِ انّترُ کیَسا
॥੧॥کنک کٹِک جل ترنّگ جیَسا
॥جءُ پےَ ہم ن پاپ کرنّتا اہے اننّتا
॥੧॥ رہاءُ ॥پتِت پاۄن نامُ کیَسے ہُنّتا
॥تُم٘ہ٘ہ جُ نائِک آچھہُ انّترجامیِ
॥੨॥پ٘ربھ تے جنُ جانیِجےَ جن تے سُیامیِ
॥سریِرُ آرادھےَ مو کءُ بیِچارُ دیہوُ
॥੩॥رۄِداس سم دل سمجھاۄےَ کوئوُ
لفظی معنی:۔ توہی موہی ۔ تیرے اور میرے درمیان ۔ (2) موہی توہی ۔ میرے اور تیرے درمیان ۔ (3) انتر ۔فرق ۔(4) کنک ۔ سونا ۔(5) کٹک ۔زیور ۔ جل۔ پانی ۔ ترنگ۔ پانی کی لہر ۔۔ جوؤپے۔ جب ۔ (2) ن کرنتا ۔ نہیں کرتا ۔ (3) اہے اننتا ۔ اے بیشُمار ۔ پتِتِ۔ ناپاک (5) پاون ۔ پاک ۔ پتِت پاون ۔ناپاک کو پاک بنانے والے ۔ کیے نتا ۔کیے ہوتا ۔ نایک۔رہنما ۔ (2) جانیجے پہچاننا ۔ ارادھے ۔ رِیاضت کرنا ۔ وِیچار ۔سمجھ ۔سُوجھ (3) سمررل۔سب سے ایک سا برتاؤ
ترجُمہ:میرے اور تیرے اور تیرے اور میرے درمیان کونسا فرق ہے ۔جیسے سونے اور سونے کے زیور،پانی اور اُسکی لہر میں کوئی
فرق نہیں ۔اے لا محدُود خُدا اگر اِنسان گُناہ نہ کرے تو تیرا نام جو ناپاک کو پاک بنانے والا ہے کیسے ہوتا ۔۔ اے دِلی راز جاننے والے خُدا آپ جو ہمارے آقا ہو ۔ آقا کو دیکھ کر یہ پہچان ہو جاتی ہے کہ اُس کا خادِم کیسا ہوگا ۔ اور خادِم سے آقا کی پہچان ہو جاتی ہے ۔(2) اِس لیئے اے خُدا مجھے یہ عِلم عِنایت فرما۔ کہ جب تک میں قائِم ہُوں تب تک تُجھے یاد کرُوں ۔ اے رویداس کو کوئی خُدا رسِیدہ پاکدامن یہ سمجھائے کہ اے خُدا تُو ہر جگہ موجُود ہے ۔
مدُعادراصل جانداروں اور خُدا میں کوئی فرق نہیں وہ ہر جگہ موجُود ہے ۔ اِنسان اُسے بُھلا کر گُناہوں میں مُلوِث ہوکر اُس سے جُدا دِکھائی دینے لگتا ہے ۔ آخِر وہ خُود ہی کِسی خُدا رسِیدہ مُرشد سے مِلا کر بُھولے ہُوئے کو اپنا آپ دِیدار کراتا ہے۔