Page 92
ਐਸਾ ਤੈਂ ਜਗੁ ਭਰਮਿ ਲਾਇਆ ॥ ਕੈਸੇ ਬੂਝੈ ਜਬ ਮੋਹਿਆ ਹੈ ਮਾਇਆ ॥ ੧॥ ਰਹਾਉ ॥ ਕਹਤ ਕਬੀਰ ਛੋਡਿ ਬਿਖਿਆ ਰਸ ਇਤੁ ਸੰਗਤਿ ਨਿਹਚਉ ਮਰਣਾ ॥ ਰਮਈਆ ਜਪਹੁ ਪ੍ਰਾਣੀ ਅਨਤ ਜੀਵਣ ਬਾਣੀ ਇਨ ਬਿਧਿ ਭਵ ਸਾਗਰੁ ਤਰਣਾ ॥੨॥ ਜਾਂ ਤਿਸੁ ਭਾਵੈ ਤਾ ਲਾਗੈ ਭਾਉ ॥ ਭਰਮੁ ਭੁਲਾਵਾ ਵਿਚਹੁ ਜਾਇ ॥ ਉਪਜੈ ਸਹਜੁ ਗਿਆਨ ਮਤਿ ਜਾਗੈ ॥ ਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ਅੰਤਰਿ ਲਿਵ ਲਾਗੈ ॥੩॥ ਇਤੁ ਸੰਗਤਿ ਨਾਹੀ ਮਰਣਾ ॥ ਹੁਕਮੁ ਪਛਾਣਿ ਤਾ ਖਸਮੈ ਮਿਲਣਾ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ਦੂਜਾ ॥
॥ایَسا تیَں جگُ بھرمِ لائِیا
॥੧॥ رہاءُ ॥کیَسے بوُجھےَ جب موہِیا ہےَ مائِیا
॥کہت کبیِر چھوڈِ بِکھِیا رس اِتُ سنّگتِ نِہچءُ مرنھا
॥੨॥رمئیِیا جپہُ پ٘رانھیِ انت جیِۄنھ بانھیِ اِن بِدھِ بھۄ ساگرُ ترنھا
॥جاں تِسُ بھاۄےَ تا لاگےَ بھاءُ
॥بھرمُ بھُلاۄا ۄِچہُ جاءِ
॥اُپجےَ سہجُ گِیان متِ جاگےَ
॥੩॥گُر پ٘رسادِ انّترِ لِۄ لاگےَ
॥اِتُ سنّگتِ ناہیِ مرنھا
॥੧॥ رہاءُ دوُجا ॥ہُکمُ پچھانھِ تا کھسمےَ مِلنھا
لفظی معنی:۔جننی ۔ پیدا کرنے والی ۔ ماتا ۔(3) ۔سُت ۔ بیٹا ۔ فرزند ۔ (3) اودھ۔ عُمر ۔ (4) مور مور ۔میرا میرا (5) ادھک ۔ زِیادہ (6) پیکھیت۔ دیکھ کر (7) جمراؤ ۔ فرِشتہ موت ۔ (8) نہچیو ۔ یقیناً
ترجُمہ:ماتا سمجھتی ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہو رہا ہے ۔ مگر یہ بات نہیں سمجھتی کہ یوں یوں دِن گُذر رہے ہیں اُسکی عُمر گھٹ رہی ہے ۔ وہ یوں کہتی ہے یہ میرا بیٹا ہے یہ میرا بیٹا ہے بڑا پیار کرتی ہے اُسے دیکھ کر فرشتہ موت ہنستا ہے ۔ اِس طرح خُدا نے عالَم کو بُھول میں ڈال رکھا ہے ۔ وہ کیسے سمجھے جب اِس دُنیاوی دولت کی مُحبت میں گِرفتار ہے ۔ کبیر صاحِب جی فرماتے ہیں کہ اے اِنسان اِس دُنیاوی دولت کے لُطف لینے چھوڑ دے ۔ اِن لُطفوں سے اِنسان کی رُوحانی موت ہو جاتی ہے ۔ خُدا کو یاد کر اے اِنسان کلام اِلہٰی ہی سے پائیدار زِندگی مِلتی ہے ۔اور اِس طرِیقے سے اِنسان اِس دُنیاوی زِندگیوں کے سمندر سے عُبُور حاصِل کرتا ہے۔ جب خُدا چاہتا ہے اُسکی رضا ہوتی ہے تبھی اُس سے انس پیدا ہوتی ہے ۔ اور دِل سے شک و شُبہات مِٹتے ہیں ۔ مُستقِل مِزاج ہو جاتا ہے اِنسان عِلم سے مُنور ہوکر سکُون پاتا ہے اور رِحمت و عِنایت مُرشد سے اِلہٰی میلاپ پاتا ہے اور یکسوئی ہوجاتی ہے ۔(3) خُدا میں دِل لگانے سے رُوحانی موت نہیں ہوتی کِیونکہ اِنسان کو اِلہٰی حُکم کی پہچان ہو جاتی ہے ۔ تب خُدا سے اُسکا میلاپ ہوجاتا ہے
مدُعائے کلام:خُدا جانداروں کی طاقت سے بعِید ہے۔ خُدا خُود ہی اِنسان کو دُنیاوی دولت کی مُحبت میں پھنساتا ہے ۔اِس دُنیاوی دولت کی مُحبت میں اِنسانی ضمیر مُردہ ہو جاتا ہے ۔ اور اُسے نیک و بد کی تمیز جاتی رہتی ہے ۔ مگر اگر خُدا کرم و عِنایت فرمائے تو دِل سے دُنیاوی دولت کی مُحبت ختم ہو کر اِنسان کی خُدا سے یکسوئی ہوجاتی ہے ۔ دِل میں لرزش نہیں رہتی اِنسان مُستقِل مِزاجی ہو جاتا ہے اور اِلہٰی رضا کی سمجھ آجاتی ہے اور ضمیر میں بیدیار رہتی ہے ۔
ਸਿਰੀਰਾਗੁ ਤ੍ਰਿਲੋਚਨ ਕਾ ॥ ਮਾਇਆ ਮੋਹੁ ਮਨਿ ਆਗਲੜਾ ਪ੍ਰਾਣੀ ਜਰਾ ਮਰਣੁ ਭਉ ਵਿਸਰਿ ਗਇਆ ॥ ਕੁਟੰਬੁ ਦੇਖਿ ਬਿਗਸਹਿ ਕਮਲਾ ਜਿਉ ਪਰ ਘਰਿ ਜੋਹਹਿ ਕਪਟ ਨਰਾ ॥੧॥ ਦੂੜਾ ਆਇਓਹਿ ਜਮਹਿ ਤਣਾ ॥ ਤਿਨ ਆਗਲੜੈ ਮੈ ਰਹਣੁ ਨ ਜਾਇ ॥ ਕੋਈ ਕੋਈ ਸਾਜਣੁ ਆਇ ਕਹੈ ॥ ਮਿਲੁ ਮੇਰੇ ਬੀਠੁਲਾ ਲੈ ਬਾਹੜੀ ਵਲਾਇ ॥ ਮਿਲੁ ਮੇਰੇ ਰਮਈਆ ਮੈ ਲੇਹਿ ਛਡਾਇ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ ਅਨਿਕ ਅਨਿਕ ਭੋਗ ਰਾਜ ਬਿਸਰੇ ਪ੍ਰਾਣੀ ਸੰਸਾਰ ਸਾਗਰ ਪੈ ਅਮਰੁ ਭਇਆ ॥ ਮਾਇਆ ਮੂਠਾ ਚੇਤਸਿ ਨਾਹੀ ਜਨਮੁ ਗਵਾਇਓ ਆਲਸੀਆ ॥੨॥ ਬਿਖਮ ਘੋਰ ਪੰਥਿ ਚਾਲਣਾ ਪ੍ਰਾਣੀ ਰਵਿ ਸਸਿ ਤਹ ਨ ਪ੍ਰਵੇਸੰ ॥ ਮਾਇਆ ਮੋਹੁ ਤਬ ਬਿਸਰਿ ਗਇਆ ਜਾਂ ਤਜੀਅਲੇ ਸੰਸਾਰੰ ॥੩॥ ਆਜੁ ਮੇਰੈ ਮਨਿ ਪ੍ਰਗਟੁ ਭਇਆ ਹੈ ਪੇਖੀਅਲੇ ਧਰਮਰਾਓ ॥ ਤਹ ਕਰ ਦਲ ਕਰਨਿ ਮਹਾਬਲੀ ਤਿਨ ਆਗਲੜੈ ਮੈ ਰਹਣੁ ਨ ਜਾਇ ॥੪॥ ਜੇ ਕੋ ਮੂੰ ਉਪਦੇਸੁ ਕਰਤੁ ਹੈ ਤਾ ਵਣਿ ਤ੍ਰਿਣਿ ਰਤੜਾ ਨਾਰਾਇਣਾ ॥ ਐ ਜੀ ਤੂੰ ਆਪੇ ਸਭ ਕਿਛੁ ਜਾਣਦਾ ਬਦਤਿ ਤ੍ਰਿਲੋਚਨੁ ਰਾਮਈਆ ॥੫॥੨॥
॥سِریِراگُ ت٘رِلوچن کا
॥مائِیا موہُ منِ آگلڑا پ٘رانھیِ جرا مرنھُ بھءُ ۄِسرِ گئِیا
॥੧॥کُٹنّبُ دیکھِ بِگسہِ کملا جِءُ پر گھرِ جوہہِ کپٹ نرا
॥دوُڑا آئِئوہِ جمہِ تنھا
॥تِن آگلڑےَ مےَ رہنھُ ن جاءِ
॥کوئیِ کوئیِ ساجنھُ آءِ کہےَ
॥مِلُ میرے بیِٹھُلا لےَ باہڑیِ ۄلاءِ
॥੧॥ رہاءُ ॥مِلُ میرے رمئیِیا مےَ لیہِ چھڈاءِ
॥انِک انِک بھوگ راج بِسرے پ٘رانھیِ سنّسار ساگر پےَ امرُ بھئِیا
॥੨॥مائِیا موُٹھا چیتسِ ناہیِ جنمُ گۄائِئو آلسیِیا
॥بِکھم گھور پنّتھِ چالنھا پ٘رانھیِ رۄِ سسِ تہ ن پ٘رۄیسنّ
॥੩॥مائِیا موہُ تب بِسرِ گئِیا جاں تجیِئلے سنّسارنّ
॥آجُ میرےَ منِ پ٘رگٹُ بھئِیا ہےَ پیکھیِئلے دھرمرائو
॥੪॥تہ کر دل کرنِ مہابلیِ تِن آگلڑےَ مےَ رہنھُ ن جاءِ
॥جے کو موُنّ اُپدیسُ کرتُ ہےَ تا ۄنھِ ت٘رِنھِ رتڑا نارائِنھا
॥੫॥੨॥اےَ جیِ توُنّ آپے سبھ کِچھُ جانھدا بدتِ ت٘رِلوچنُ رامئیِیا
لفظی معنی:اگلڑا۔ نِہایت زِیادہ (2) جرا ۔ بڑھاپا ۔ وگسیہہ۔ خُوش ہوتا ہے ۔(4) کملا جیؤ ۔کنول کے پُھول کے مانِند (5) پر گھر ۔ بیگانے گھر (6) جو ہے ۔نظر رکھتا ہے ۔پٹ نرا ۔اے دھوکا باز اِنسان ۔ دُوڑا آیئو ہے ۔ دوڑتا آ رہا ہے ۔ جمیہہ ۔ فرشتہ موت کا فرزند (۔0) تن آگلڑے۔ اُنکے ساہمنے (۔1۔) ساجن ۔ دوست (۔2) باہڑی بلائے ۔ بازوؤں میں لیکر ۔بیٹھل ۔ خُدا ۔ امر۔ لافناہ ۔موٹُھا ۔ ٹھگیا گیا ۔ چیتس ناہی (2) یاد نہہیں کرتا۔ وِکھم گہور پنتھ ۔ بھاری اندھیرا راستہ ۔رَوِ۔ سُورج ۔ سعس۔ چاند۔ پرویسا ۔ داخِل ہونا ۔ تجیلے ۔چھوڑنا ۔ پیکھیئے کر۔ ہاتھ دِل کرن۔ کچل ۔دُینا۔ ترن ۔تِنکا ۔ رتڑا۔ کِسی کے زیر اثر ہونا ۔بدت۔ بیان کرنا ۔ رمیا ۔ رام ۔
ترجُمہ:اے اِنسان تیرے دِل میں دولت سے نِہایت مُحبت ہے ۔ بُڑھاپے اور موت کا خوف بُھلا دیا ۔ اپنے قبِیلے کو دیکھ کر کنول کے پُھول کی مانِند کِھلتا ہے ۔ اور اے بد کِردار دُوسروں کے گھر پر نظر رکھتا ہے ۔ موت کا فرِشتہ دوڑ کر آ رہا ہے ۔ میں اُس کے ساہمنے ٹِک نہ سکُوں گا ۔ کوئی کوئی پیارا آکے کہتا ہے کہ میرے رام مُجھے آکے مِل اور مجھے اپنی بازوؤں میں لے لے ۔ اور مُجھے چُھڑا۔ اے اِنسان طرح طرح کی دُنیاوی لزتوں اور لُطفوں میں تُونے خُدا کو بُھلا دیا اور سمجھتا ہے کہ اِس عالَم میں ہمیشہ رہے گا ۔ اور دولت کے دھوکے میں اپنی زِندگی غفلت میں گُذار دی ۔ (2) اے اِنسان تُو نے نِہایت دُشوار گُذار اندھیرا راستہ اختیار کر رکھا ہے ۔ جہاں نہ سُورج کی روشنی ہے نہ چاند کی مُراد نہ دِن ہے نہ رات بیداری میں گُذارتا ہے ۔ غفلت کی نِید سو رہا ہے ۔ اِس دولت کی بَوَقت موت آخِر چھوڑے گا ہی ۔(3) آج میرے دِل میں یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اِلہٰی مُنصف کے رُوبرُو پیش ہونا پڑیگا ۔ وہاں تو بھاری قُوتوں کے مالِکوں کو بھی پائمال کر دیا جاتا ہے ۔ میں اُسکےآگے کوئی حِیل وحُجت نہ کر سکُوں گا ۔(4) اگر کوئی مُجھے سبق دیتاہے تو مُجھے ہر شے میں عرض یہ کہ جنگل اور گھاس کے تِنکے میں تیرا دِیدار پاتا ہُوں ۔ اے خُدا میری تویہ ایک گُذارش ہے ورنہ اپنے آپ تُو ہی سمجھتا ہے ۔
مدُعائے کلام :کہ اِنسان دُنیاوی دولت کی مُحبت میں سر سے پاؤں تک گِرفتار ہے ۔ اِسے موت یاد نہیں ۔ نعِمتوں کی لذتوں میں سر شار سمجھتے ہیں کہ ہم نےکبھی مرنا نہیں ۔ لِہذا زِندگی بیکار گُذار رہے ہیں لِہذا اُسکے لیئے اُسکا نتِیجہ بُھگتنا پڑیگا ۔ مگر البتہ ایسے بھی ہیں کوئی کوئی بہُت کم جو اپنی آخِرت کو یاد رکھتے ہیں اور خُدا کی صِفت صلاح کرتے ہیں۔
ਸ੍ਰੀਰਾਗੁ ਭਗਤ ਕਬੀਰ ਜੀਉ ਕਾ ॥ ਅਚਰਜ ਏਕੁ ਸੁਨਹੁ ਰੇ ਪੰਡੀਆ ਅਬ ਕਿਛੁ ਕਹਨੁ ਨ ਜਾਈ ॥ ਸੁਰਿ ਨਰ ਗਣ ਗੰਧ੍ਰਬ ਜਿਨਿ ਮੋਹੇ ਤ੍ਰਿਭਵਣ ਮੇਖੁਲੀ ਲਾਈ ॥੧॥ ਰਾਜਾ ਰਾਮ ਅਨਹਦ ਕਿੰਗੁਰੀ ਬਾਜੈ ॥ ਜਾ ਕੀ ਦਿਸਟਿ ਨਾਦ ਲਿਵ ਲਾਗੈ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ ਭਾਠੀ ਗਗਨੁ ਸਿੰਙਿਆ ਅਰੁ ਚੁੰਙਿਆ ਕਨਕ ਕਲਸ ਇਕੁ ਪਾਇਆ ॥ ਤਿਸੁ ਮਹਿ ਧਾਰ ਚੁਐ ਅਤਿ ਨਿਰਮਲ ਰਸ ਮਹਿ ਰਸਨ ਚੁਆਇਆ ॥੨॥ ਏਕ ਜੁ ਬਾਤ ਅਨੂਪ ਬਨੀ ਹੈ ਪਵਨ ਪਿਆਲਾ ਸਾਜਿਆ ॥ ਤੀਨਿ ਭਵਨ ਮਹਿ ਏਕੋ ਜੋਗੀ ਕਹਹੁ ਕਵਨੁ ਹੈ ਰਾਜਾ ॥੩॥ ਐਸੇ ਗਿਆਨ ਪ੍ਰਗਟਿਆ ਪੁਰਖੋਤਮ ਕਹੁ ਕਬੀਰ ਰੰਗਿ ਰਾਤਾ ॥ ਅਉਰ ਦੁਨੀ ਸਭ ਭਰਮਿ ਭੁਲਾਨੀ ਮਨੁ ਰਾਮ ਰਸਾਇਨ ਮਾਤਾ ॥੪॥੩॥
॥س٘ریِراگُ بھگت کبیِر جیِءُ کا
॥اچرج ایکُ سُنہُ رے پنّڈیِیا اب کِچھُ کہنُ ن جائیِ
॥੧॥سُرِ نر گنھ گنّدھ٘رب جِنِ موہے ت٘رِبھۄنھ میکھُلیِ لائیِ
॥راجا رام انہد کِنّگُریِ باجےَ
॥੧॥ رہاءُ ॥جا کیِ دِسٹِ ناد لِۄ لاگےَ
॥بھاٹھیِ گگنُ سِنّگنِْیا ارُ چُنّگنِْیا کنک کلس اِکُ پائِیا
॥੨॥تِسُ مہِ دھار چُئےَ اتِ نِرمل رس مہِ رسن چُیائِیا
॥ایک جُ بات انوُپ بنیِ ہےَ پۄن پِیالا ساجِیا
॥੩॥تیِنِ بھۄن مہِ ایکو جوگیِ کہہُ کۄنُ ہےَ راجا
॥ایَسے گِیان پ٘رگٹِیا پُرکھوتم کہُ کبیِر رنّگِ راتا
॥੪॥੩॥ائُر دُنیِ سبھ بھرمِ بھُلانیِ منُ رام رسائِن ماتا
لفظی معنی:۔ اچرج۔ حیران کرنے والی ۔ پنڈیا ۔اے پنڈے ۔سُر ۔ فرِشتے (2) نر ۔ اِنسان ۔گن۔ خادمان ۔ گندھرب ۔ فرِشتوں کے گانے والے ۔گیت کار ۔ میکھلی ۔نِظام ۔ کتنگری ۔ نبینا۔ ساز ۔ دِسٹ ۔نِگاہ شفقت ۔ ناد ۔ کلام کی دُھن ۔ گگن ۔ ذہن دسواں دوا ۔ سنگھیا ۔ دایں سر۔ اڑا ۔ چنگھیا۔ باہیں سر۔ پنگلا ۔ کنک۔ سونا ۔ کلس ۔ گھڑا ۔ رس ۔ لُطف ۔ پرکھو تم ۔ بُلند پایہ اِنسان ۔ رام رسائن۔ اِلہٰی نام کا خُمار ۔ تن بہون ۔ تِینوں عالَم
ترجُمہ:اے پنڈِت اُس حیران کُن خُدا کا ایک تماشہ سُن جو اب بیان نہیں ہو سکتا ۔ جِس نے فرِشتے ،فرِشتوں کےخادم اور ان کے گانے والے کو اپنی مُحبت کی گِرفت میں لے رکھا ہے ۔ اور تِینوں جہانوں کو اُس میں باندھ رکھا ہے ۔جِس کی نگِاہ شفقت سے کلام اِلہٰی میں مُحبت پیدا ہوتی ہے اُس خدا کی ستائش کا سنگیت میرے دِل میں بج رہا ہے ۔ میرا ذہن ایک بھبھٹی کی مانِند ہو گیا ہے مُراد میرا ہوش اور دِھیان اُس میں لگا ہُوا ہے ۔ بُرے کاموں سے پرہیز ایسے ہے جیسے شراب کی بھٹی میں فالتوپانی نِکالنے کی نلکی ۔ اور نیک اوصاف پر عمل پیرا ہونا شراب نِکالنے کی نلی ہے ۔ اور پاک دِل سونے کا کلس یا برتن ۔اب میں نے اپنے دِل کو سونے کے برتن کی مانِند پاک بنا لیا ہے ۔ اُس میں ایک نِہایت پاک دھارا بہہ رہی ہے ۔ اور تمام لزتوں سے بہتر لزت پائی جا رہی ہے (2)ایک انوکھی اور نِرالی بات یہ ہے کہ میں نے اپنے سانسوں کو پِیالہ بنا رکھا ہے ۔ مُراد اب میں ہر سانس خُدا کو یاد کرتا ہُوں ۔ اور تِینوں عالَموں میں واحِد خُدا ہی بستا نظر آرہا ہے اب بتاؤ کہ اُس سے بڑا کون ہے ۔ (3) ایسے اُس خُدا کی بابت پہچان اور عِلم ہو گیا ہے ۔ اے اِلہٰی پیار سے لبریز سرشار کبیر کہُہ۔ کہ تمام عالَم بُھول میں ہے ۔ رِحمت خُدا سے میرا دِل اِلہٰی مُحبت کے لُطف سے سر مست ہو گیا ہے
مدعا کلام مُرشد پر عمل کرنے پر خُدا سے مُحبت ہو جاتی ہے ۔ اور اُسکی لزت و لُطف بیان نہیں ہو سکتا مگر دِل و ذہن اُسکی لذت سے محظوظ رہتے ہیں ۔ اور ہر لمحہ اُسکی یاد میں گُذرتا ہے اور خُدا ہی اُسے سب سے بڑا نظر آتا ہے اور دِل اُسکی مُحبت میں مست رہتا ہے ۔