Page 480
ਜਮ ਕਾ ਡੰਡੁ ਮੂੰਡ ਮਹਿ ਲਾਗੈ ਖਿਨ ਮਹਿ ਕਰੈ ਨਿਬੇਰਾ ॥੩॥
جب یم کی سزا اس کے سر پڑتی ہے، تو ایک ہی لمحے میں فیصلہ ہو جاتا ہے، یعنی جب انسان فوت ہوجاتا ہے، تو مال و دولت وہی رہ جاتا ہے۔ 3۔
ਹਰਿ ਜਨੁ ਊਤਮੁ ਭਗਤੁ ਸਦਾਵੈ ਆਗਿਆ ਮਨਿ ਸੁਖੁ ਪਾਈ ॥
ہری کا خدمت گزار بہترین معتقد کہلاتا ہے اور وہ ہری کا حکم مان کر خوشی حاصل کرتا ہے۔
ਜੋ ਤਿਸੁ ਭਾਵੈ ਸਤਿ ਕਰਿ ਮਾਨੈ ਭਾਣਾ ਮੰਨਿ ਵਸਾਈ ॥੪॥
جو ہری کو بہتر لگتا ہے، وہ حق مان کر قبول کرتا ہے اور وہ رضائے رب کو اپنے دل میں بساتا ہے۔ 4۔
ਕਹੈ ਕਬੀਰੁ ਸੁਨਹੁ ਰੇ ਸੰਤਹੁ ਮੇਰੀ ਮੇਰੀ ਝੂਠੀ ॥
کبیر جی کہتے ہیں کہ سنتوں! سنو، یہ میں۔ میری کی رٹ جھوٹی ہے؛ کیونکہ
ਚਿਰਗਟ ਫਾਰਿ ਚਟਾਰਾ ਲੈ ਗਇਓ ਤਰੀ ਤਾਗਰੀ ਛੂਟੀ ॥੫॥੩॥੧੬॥
موت (روح نما) پرندے کے پنجڑے (جیسے جسم) کو پھاڑ کر روح کو لے جاتی ہے اور بے جان جسم کا دھاگہ وہاں ٹوٹ جاتا ہے۔ 5۔ 3۔ 16۔
ਆਸਾ ॥
آسا۔
ਹਮ ਮਸਕੀਨ ਖੁਦਾਈ ਬੰਦੇ ਤੁਮ ਰਾਜਸੁ ਮਨਿ ਭਾਵੈ ॥
اے قاضی! ہم مسکین اس واہے گرو کے پیدا کردہ بندے ہیں۔ تجھے اپنے دل کا حکم پسندیدہ ہے، یعنی تجھے اس پر بڑا فخر ہے؛لیکن
ਅਲਹ ਅਵਲਿ ਦੀਨ ਕੋ ਸਾਹਿਬੁ ਜੋਰੁ ਨਹੀ ਫੁਰਮਾਵੈ ॥੧॥
اول اللّٰہ مذہب کا مالک ہے، وہ کسی پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 1۔
ਕਾਜੀ ਬੋਲਿਆ ਬਨਿ ਨਹੀ ਆਵੈ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
اے قاضی! تیری زبان سے نکلی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ 1۔
ਰੋਜਾ ਧਰੈ ਨਿਵਾਜ ਗੁਜਾਰੈ ਕਲਮਾ ਭਿਸਤਿ ਨ ਹੋਈ ॥
روزہ رکھنے، نماز پڑھنے اور کلمہ پڑھنے سے جنت (بہشت)نہیں ملتی۔
ਸਤਰਿ ਕਾਬਾ ਘਟ ਹੀ ਭੀਤਰਿ ਜੇ ਕਰਿ ਜਾਨੈ ਕੋਈ ॥੨॥
اللّٰہ کا گھر کعبہ تو تیرے باطن میں ہی موجود ہے؛ لیکن ملتا اسی وقت ہے، جب کوئی اس راز سے واقف ہو۔ 2۔
ਨਿਵਾਜ ਸੋਈ ਜੋ ਨਿਆਉ ਬਿਚਾਰੈ ਕਲਮਾ ਅਕਲਹਿ ਜਾਨੈ ॥
جو عدل کا متفکر ہے، وہی سچی نماز پڑھتا ہے۔ اگر کوئی اللّٰہ کو پہچانتا ہے، تو وہی اس کا کلمہ ہے۔
ਪਾਚਹੁ ਮੁਸਿ ਮੁਸਲਾ ਬਿਛਾਵੈ ਤਬ ਤਉ ਦੀਨੁ ਪਛਾਨੈ ॥੩॥
جو شخص پانچوں برائیوں کو مارکر قابو میں کرلیتا ہے، تو نماز کا مصلیٰ(جائے نماز) بچھاتا ہے اور مذہب کو پہچانتا ہے۔ 3۔
ਖਸਮੁ ਪਛਾਨਿ ਤਰਸ ਕਰਿ ਜੀਅ ਮਹਿ ਮਾਰਿ ਮਣੀ ਕਰਿ ਫੀਕੀ ॥
اے قاضی! اپنے مالک خدا کو پہچان، اپنے دل میں خوفِ رب پیدا کر اور اپنے غرور کو مٹاکر پھیکا کردے۔
ਆਪੁ ਜਨਾਇ ਅਵਰ ਕਉ ਜਾਨੈ ਤਬ ਹੋਇ ਭਿਸਤ ਸਰੀਕੀ ॥੪॥
جب انسان خود کو سمجھ کر دوسروں کو خود کی طرح سمجھتا ہے، تو وہ جنت (بہشت) کا حق دار ہوجاتا ہے۔ 4۔
ਮਾਟੀ ਏਕ ਭੇਖ ਧਰਿ ਨਾਨਾ ਤਾ ਮਹਿ ਬ੍ਰਹਮੁ ਪਛਾਨਾ ॥
مٹی تو ایک ہی ہے؛ لیکن یہ کئی شکلیں اختیار کی ہوئی ہیں۔ میں ان تمام میں ایک ہی رب کو پہچانتا ہوں۔
ਕਹੈ ਕਬੀਰਾ ਭਿਸਤ ਛੋਡਿ ਕਰਿ ਦੋਜਕ ਸਿਉ ਮਨੁ ਮਾਨਾ ॥੫॥੪॥੧੭॥
کبیر جی کہتے ہیں کہ اے قاضی! تم نے تو جنت (بہشت) کی راہ ترک کرکے دانستہ طور پر اپنا دل دوزخ (جہنم)سے منسلک کرلیا ہے۔ 5۔ 4۔ 17۔
ਆਸਾ ॥
آسا۔
ਗਗਨ ਨਗਰਿ ਇਕ ਬੂੰਦ ਨ ਬਰਖੈ ਨਾਦੁ ਕਹਾ ਜੁ ਸਮਾਨਾ ॥
اب دسویں دروازے کے آسمانی شہر میں ایک بوند بھی نہیں برستی۔ کہاں ہے وہ آواز، جو اس کے اندر سماہوئی ہوئی تھی؟
ਪਾਰਬ੍ਰਹਮ ਪਰਮੇਸੁਰ ਮਾਧੋ ਪਰਮ ਹੰਸੁ ਲੇ ਸਿਧਾਨਾ ॥੧॥
برہما رب روح نما اعلیٰ راہب کو لے گیا ہے۔ 1۔
ਬਾਬਾ ਬੋਲਤੇ ਤੇ ਕਹਾ ਗਏ ਦੇਹੀ ਕੇ ਸੰਗਿ ਰਹਤੇ ॥
اے بابا! جو روح گفتگو کرتی اور جسم کے ساتھ رہتی تھی، وہ کہاں چلی گئی ہے؟
ਸੁਰਤਿ ਮਾਹਿ ਜੋ ਨਿਰਤੇ ਕਰਤੇ ਕਥਾ ਬਾਰਤਾ ਕਹਤੇ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
وہ روح دل میں رقص کرتی تھی اور کہانیاں سناتی تھی۔ 1۔ وقفہ ۔
ਬਜਾਵਨਹਾਰੋ ਕਹਾ ਗਇਓ ਜਿਨਿ ਇਹੁ ਮੰਦਰੁ ਕੀਨ੍ਹ੍ਹਾ ॥
وہ بجانے والی روح کہاں چلی گئی ہے، جس نے اس جسم نما مندر کو اپنا بنایا ہوا تھا؟
ਸਾਖੀ ਸਬਦੁ ਸੁਰਤਿ ਨਹੀ ਉਪਜੈ ਖਿੰਚਿ ਤੇਜੁ ਸਭੁ ਲੀਨ੍ਹ੍ਹਾ ॥੨॥
کوئی کہانی، لفظ، سمجھ پیدا نہیں ہوتی۔ رب نے ساری طاقت ختم کردی ہے۔ 2۔
ਸ੍ਰਵਨਨ ਬਿਕਲ ਭਏ ਸੰਗਿ ਤੇਰੇ ਇੰਦ੍ਰੀ ਕਾ ਬਲੁ ਥਾਕਾ ॥
تیرے رفیق کا کان بہرا ہوگیا ہے اور تیرے اعضا کی طاقت بھی کمزور ہو گئی ہے۔
ਚਰਨ ਰਹੇ ਕਰ ਢਰਕਿ ਪਰੇ ਹੈ ਮੁਖਹੁ ਨ ਨਿਕਸੈ ਬਾਤਾ ॥੩॥
تیرے قدم بھی چلنے سے عاجز ہیں، ہاتھ بھی شل ہوگئے ہیں اور تیری زبان سے کوئی بات بھی نہیں نکلتی۔ 3۔
ਥਾਕੇ ਪੰਚ ਦੂਤ ਸਭ ਤਸਕਰ ਆਪ ਆਪਣੈ ਭ੍ਰਮਤੇ ॥
تمھاری پانچوں شہوانی برائیاں تھک گئی ہیں اور وہ سبھی چور خود بخود بھٹکنا چھوڑ چکے ہیں۔
ਥਾਕਾ ਮਨੁ ਕੁੰਚਰ ਉਰੁ ਥਾਕਾ ਤੇਜੁ ਸੂਤੁ ਧਰਿ ਰਮਤੇ ॥੪॥
دل نما ہاتھی بھی تھک چکا ہے اور مربی دل جس کے ذریعے جسم کے حواس کام کرتے تھے، وہ بھی تھک گیا ہے۔ 4۔
ਮਿਰਤਕ ਭਏ ਦਸੈ ਬੰਦ ਛੂਟੇ ਮਿਤ੍ਰ ਭਾਈ ਸਭ ਛੋਰੇ ॥
وفات کے بعد دسوں دروازوں کے بندھن ٹوٹ گئے ہیں اور وہ اپنے رفیقوں اور بھائیوں کو چھوڑ گیا ہے۔
ਕਹਤ ਕਬੀਰਾ ਜੋ ਹਰਿ ਧਿਆਵੈ ਜੀਵਤ ਬੰਧਨ ਤੋਰੇ ॥੫॥੫॥੧੮॥
کبیر جی کہتے ہیں کہ جو شخص واہے گرو کا دھیان کرتا ہے، وہ حالتِ حیات میں ہی تمام بندھنوں کو توڑدیتا ہے۔
ਆਸਾ ਇਕਤੁਕੇ ੪ ॥
آسا۔
ਸਰਪਨੀ ਤੇ ਊਪਰਿ ਨਹੀ ਬਲੀਆ ॥
پوری کائنات میں مایا نما سانپ سے زیادہ کوئی طاقت ور نہیں۔
ਜਿਨਿ ਬ੍ਰਹਮਾ ਬਿਸਨੁ ਮਹਾਦੇਉ ਛਲੀਆ ॥੧॥
جس نے (تینوں) برہما، وشنو اور مہادیو کو بھی فریب دیا ہے۔ 1۔
ਮਾਰੁ ਮਾਰੁ ਸ੍ਰਪਨੀ ਨਿਰਮਲ ਜਲਿ ਪੈਠੀ ॥
ہر سمت گردش کرتی ہوئی مایا نما سانپ اب نیکوکار کی صحبت نما پاک پانی میں بیٹھ گئی ہے۔
ਜਿਨਿ ਤ੍ਰਿਭਵਣੁ ਡਸੀਅਲੇ ਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ਡੀਠੀ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
جس مایا نما سانپ نے تریبھونوں یعنی پوری دنیا کو ڈس لیا تھا، میں نے اس سے گرو کے فضل سے دیکھ لیا ہے۔ 1۔ وقفہ۔
ਸ੍ਰਪਨੀ ਸ੍ਰਪਨੀ ਕਿਆ ਕਹਹੁ ਭਾਈ ॥
اے بھائی! تم مایا کو سانپ سانپ کہہ کر کیوں شور مچا رہے ہو؟
ਜਿਨਿ ਸਾਚੁ ਪਛਾਨਿਆ ਤਿਨਿ ਸ੍ਰਪਨੀ ਖਾਈ ॥੨॥
جو حق کا ادراک کرلیتا ہے، وہ مایا نما سانپ کو نگل جاتا ہے۔ 2۔
ਸ੍ਰਪਨੀ ਤੇ ਆਨ ਛੂਛ ਨਹੀ ਅਵਰਾ ॥
ذکر کرنے والوں کے علاوہ دوسرا کوئی بھی اس سانپ سے نہیں بچا ہے۔
ਸ੍ਰਪਨੀ ਜੀਤੀ ਕਹਾ ਕਰੈ ਜਮਰਾ ॥੩॥
جس نے مایا نما سانپ پر فتح حاصل کرلی ہے، یمراج بھی اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ 3۔