Page 1411
ਕੀਚੜਿ ਹਾਥੁ ਨ ਬੂਡਈ ਏਕਾ ਨਦਰਿ ਨਿਹਾਲਿ ॥
اگر رب کی مہربانی ہو جائے، تو انسان کے ہاتھ گناہوں کی کیچڑ میں نہیں پھنستے۔
ਨਾਨਕ ਗੁਰਮੁਖਿ ਉਬਰੇ ਗੁਰੁ ਸਰਵਰੁ ਸਚੀ ਪਾਲਿ ॥੮॥
نانک کہتے ہیں: جو صادق گرو کی پناہ لیتے ہیں، وہ بچ جاتے ہیں، کیونکہ گرو سچائی کا تالاب اور مضبوط دیوار ہے۔ 8۔
ਅਗਨਿ ਮਰੈ ਜਲੁ ਲੋੜਿ ਲਹੁ ਵਿਣੁ ਗੁਰ ਨਿਧਿ ਜਲੁ ਨਾਹਿ ॥
اگر آرزوؤں کی آگ کو بجھانا ہے، تو ہری نام کا پانی تلاش کرو مگر یہ پانی گرو کے بغیر نہیں ملتا۔
ਜਨਮਿ ਮਰੈ ਭਰਮਾਈਐ ਜੇ ਲਖ ਕਰਮ ਕਮਾਹਿ ॥
لاکھوں نیک عمل کرنے کے بعد بھی انسان جنم مرن کے چکر میں ہی رہتا ہے۔
ਜਮੁ ਜਾਗਾਤਿ ਨ ਲਗਈ ਜੇ ਚਲੈ ਸਤਿਗੁਰ ਭਾਇ ॥
اگر انسان صادق گرو کی رضا سے چلے، تو ملک الموت کا ڈر اُس پر اثر نہیں کرتا۔
ਨਾਨਕ ਨਿਰਮਲੁ ਅਮਰ ਪਦੁ ਗੁਰੁ ਹਰਿ ਮੇਲੈ ਮੇਲਾਇ ॥੯॥
نانک فرماتے ہیں کہ گرو انسان کو رب سے ملا دیتا ہے تب وہ پاکیزہ اور امر حالت کو پا لیتا ہے۔ 6۔
ਕਲਰ ਕੇਰੀ ਛਪੜੀ ਕਊਆ ਮਲਿ ਮਲਿ ਨਾਇ ॥
کیچڑ سے بھری جھیل میں انسان کوا بن کر بار بار(گناہوں کی) نہاتا ہے،
ਮਨੁ ਤਨੁ ਮੈਲਾ ਅਵਗੁਣੀ ਚਿੰਜੁ ਭਰੀ ਗੰਧੀ ਆਇ ॥
اس سے اُس کا دل اور جسم اور بھی ناپاک ہو جاتے ہیں اور اس کی چونچ بھی گندگی سے بھر جاتی ہے۔
ਸਰਵਰੁ ਹੰਸਿ ਨ ਜਾਣਿਆ ਕਾਗ ਕੁਪੰਖੀ ਸੰਗਿ ॥
انسان نیکوں کے تالاب کو نہیں جان پاتا کیونکہ وہ بُرے لوگوں کی صحبت میں لگا رہتا ہے۔
ਸਾਕਤ ਸਿਉ ਐਸੀ ਪ੍ਰੀਤਿ ਹੈ ਬੂਝਹੁ ਗਿਆਨੀ ਰੰਗਿ ॥
اے سمجھدار انسان ! یاد رکھو کہ بدکاروں سے محبت بھی اسی طرح کیچڑ بھری ہوتی ہے۔
ਸੰਤ ਸਭਾ ਜੈਕਾਰੁ ਕਰਿ ਗੁਰਮੁਖਿ ਕਰਮ ਕਮਾਉ ॥
صادق لوگوں کی محفل میں جا کر رب کا ذکر کرو اور صادق گرو کی پیروی کرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاؤ۔
ਨਿਰਮਲੁ ਨ੍ਹ੍ਹਾਵਣੁ ਨਾਨਕਾ ਗੁਰੁ ਤੀਰਥੁ ਦਰੀਆਉ ॥੧੦॥
نانک فرماتے ہیں صادق گرو ہی پاکیزگی کا دریا اور مقدس زیارت گاہ ہے۔ 10
ਜਨਮੇ ਕਾ ਫਲੁ ਕਿਆ ਗਣੀ ਜਾਂ ਹਰਿ ਭਗਤਿ ਨ ਭਾਉ ॥
اگر رب کی بھکتی اور محبت نہیں تو انسان کے جنم کا کوئی فائدہ نہیں۔
ਪੈਧਾ ਖਾਧਾ ਬਾਦਿ ਹੈ ਜਾਂ ਮਨਿ ਦੂਜਾ ਭਾਉ ॥
لباس پہننا، کھانا پینا۔سب بیکار ہے اگر دل میں دوئی کا بھاؤ ہو۔
ਵੇਖਣੁ ਸੁਨਣਾ ਝੂਠੁ ਹੈ ਮੁਖਿ ਝੂਠਾ ਆਲਾਉ ॥
دیکھنا، سننا، بولنا یہ سب جھوٹ ہے اگر رب کا ذکر نہ ہو۔
ਨਾਨਕ ਨਾਮੁ ਸਲਾਹਿ ਤੂ ਹੋਰੁ ਹਉਮੈ ਆਵਉ ਜਾਉ ॥੧੧॥
نانک فرماتے ہیں صرف رب کا نام سراہوباقی سب انا کی وجہ سے موت و حیات کا چکر ہی بنا رہتا ہے۔ 11
ਹੈਨਿ ਵਿਰਲੇ ਨਾਹੀ ਘਣੇ ਫੈਲ ਫਕੜੁ ਸੰਸਾਰੁ ॥੧੨॥
رب کے ذکر کرنے والے بہت کم ہیں باقی دنیا صرف دکھاوا اور بے فائدہ باتوں میں مگن ہے۔ 12
ਨਾਨਕ ਲਗੀ ਤੁਰਿ ਮਰੈ ਜੀਵਣ ਨਾਹੀ ਤਾਣੁ ॥
نانک فرماتے ہیں جب دل پر عشق کی چوٹ لگتی ہے تو انسان مر جاتا ہے یعنی دنیاوی خواہشات سے آزاد ہو جاتا ہے۔
ਚੋਟੈ ਸੇਤੀ ਜੋ ਮਰੈ ਲਗੀ ਸਾ ਪਰਵਾਣੁ ॥
جو عشق کی چوٹ سے مرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔
ਜਿਸ ਨੋ ਲਾਏ ਤਿਸੁ ਲਗੈ ਲਗੀ ਤਾ ਪਰਵਾਣੁ ॥
یہ چوٹ اُسی کو لگتی ہے جس پر رب خود یہ فضل کرے اور یہی چوٹ قبول ہوتی ہے۔
ਪਿਰਮ ਪੈਕਾਮੁ ਨ ਨਿਕਲੈ ਲਾਇਆ ਤਿਨਿ ਸੁਜਾਣਿ ॥੧੩॥
یہ عشق کا تیر ہے جو جس پر لگ جائے، پھر وہ کبھی نکلتا نہیں۔ 13
ਭਾਂਡਾ ਧੋਵੈ ਕਉਣੁ ਜਿ ਕਚਾ ਸਾਜਿਆ ॥
جسم کے برتن کو جو کچا بنایا گیا ہے، اُسے بھلا کوئی مقدس جگہ پر نہا کر کیسے پاک کر سکتا ہے؟
ਧਾਤੂ ਪੰਜਿ ਰਲਾਇ ਕੂੜਾ ਪਾਜਿਆ ॥
پانچ عناصر سے ملا کر رب نے یہ جھوٹا کھلونا (جسم) بنایا ہے۔
ਭਾਂਡਾ ਆਣਗੁ ਰਾਸਿ ਜਾਂ ਤਿਸੁ ਭਾਵਸੀ ॥
لیکن جب اُسے پسند آئے، تو وہ اُسی جسم کو پاک کر دیتا ہے۔
ਪਰਮ ਜੋਤਿ ਜਾਗਾਇ ਵਾਜਾ ਵਾਵਸੀ ॥੧੪॥
تب وہ اندر سے رب کی نورانی روشنی جگا دیتا ہے اور روحانی ساز بجنے لگتے ہیں۔ 14
ਮਨਹੁ ਜਿ ਅੰਧੇ ਘੂਪ ਕਹਿਆ ਬਿਰਦੁ ਨ ਜਾਣਨੀ ॥
جو لوگ دل سے سخت اندھے یعنی انتہائی نادان ہوتے ہیں وہ سمجھانے کے باوجود بھی اپنے فرض کو نہیں پہچانتے۔
ਮਨਿ ਅੰਧੈ ਊਂਧੈ ਕਵਲ ਦਿਸਨਿ ਖਰੇ ਕਰੂਪ ॥
ان کا دل اندھیرے میں ڈوبا ہے اور وہ بدصورت زندگی گزارتے ہیں۔
ਇਕਿ ਕਹਿ ਜਾਣਨਿ ਕਹਿਆ ਬੁਝਨਿ ਤੇ ਨਰ ਸੁਘੜ ਸਰੂਪ ॥
لیکن جو کہی بات کو سمجھتے ہیں وہی سچے گُن والے اور باشعور لوگ ہیں۔
ਇਕਨਾ ਨਾਦੁ ਨ ਬੇਦੁ ਨ ਗੀਅ ਰਸੁ ਰਸੁ ਕਸੁ ਨ ਜਾਣੰਤਿ ॥
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں نہ آواز کا علم ہے نہ کلام کا نہ نیکی بدی کا نہ کسی ذکر کی لذت کا۔
ਇਕਨਾ ਸਿਧਿ ਨ ਬੁਧਿ ਨ ਅਕਲਿ ਸਰ ਅਖਰ ਕਾ ਭੇਉ ਨ ਲਹੰਤਿ ॥
کچھ ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ کوئی سدھی ہے، نہ ذہن ہے، نہ عقل ہے اور ایک حرف کا بھی مطلب نہیں جانتے۔
ਨਾਨਕ ਤੇ ਨਰ ਅਸਲਿ ਖਰ ਜਿ ਬਿਨੁ ਗੁਣ ਗਰਬੁ ਕਰੰਤ ॥੧੫॥
نانک فرماتے ہیں ایسے لوگ دراصل گدھے ہیں جو بغیر کسی خوبی کے غرور کرتے ہیں۔ 15
ਸੋ ਬ੍ਰਹਮਣੁ ਜੋ ਬਿੰਦੈ ਬ੍ਰਹਮੁ ॥
اصل میں وہی برہمن ہے جو رب کو پہچانتا ہے۔
ਜਪੁ ਤਪੁ ਸੰਜਮੁ ਕਮਾਵੈ ਕਰਮੁ ॥
جو جاپ، تپسیا، پرہیز اور نیک اعمال کرتا ہے اور
ਸੀਲ ਸੰਤੋਖ ਕਾ ਰਖੈ ਧਰਮੁ ॥
جو نرمی، صبر اور قناعت کے دھرم پر قائم رہتا ہے،
ਬੰਧਨ ਤੋੜੈ ਹੋਵੈ ਮੁਕਤੁ ॥
جو دنیاوی بندھنوں سے آزاد ہوتا ہے
ਸੋਈ ਬ੍ਰਹਮਣੁ ਪੂਜਣ ਜੁਗਤੁ ॥੧੬॥
وہی برہمن دنیا میں قابلِ احترام ہے۔ 16
ਖਤ੍ਰੀ ਸੋ ਜੁ ਕਰਮਾ ਕਾ ਸੂਰੁ ॥
وہی کھشتری ہے جو نیک عملوں میں بہادر ہو۔
ਪੁੰਨ ਦਾਨ ਕਾ ਕਰੈ ਸਰੀਰੁ ॥
جو اپنا جسم نیکی اور سخاوت میں لگاتا ہے
ਖੇਤੁ ਪਛਾਣੈ ਬੀਜੈ ਦਾਨੁ ॥
جو زمین کو پہچان کر اُس میں سخاوت کا بیج بوتا ہے
ਸੋ ਖਤ੍ਰੀ ਦਰਗਹ ਪਰਵਾਣੁ ॥
ایسا کھشتری ہی رب کے دربار میں قبول ہوتا ہے۔
ਲਬੁ ਲੋਭੁ ਜੇ ਕੂੜੁ ਕਮਾਵੈ ॥
اور جو لالچ، طمع اور جھوٹ میں مبتلا ہو
ਅਪਣਾ ਕੀਤਾ ਆਪੇ ਪਾਵੈ ॥੧੭॥
وہ اپنے ہی عمل کا پھل پاتا ہے۔ 17
ਤਨੁ ਨ ਤਪਾਇ ਤਨੂਰ ਜਿਉ ਬਾਲਣੁ ਹਡ ਨ ਬਾਲਿ ॥
جسم کو تنور کی طرح گرم نہ کرو اور نہ ہی ہڈیوں کو ایندھن بنا کر جلاو۔
ਸਿਰਿ ਪੈਰੀ ਕਿਆ ਫੇੜਿਆ ਅੰਦਰਿ ਪਿਰੀ ਸਮ੍ਹ੍ਹਾਲਿ ॥੧੮॥
سر اور پاؤں کو سزا دینے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ دل میں رب کی یاد کو سنبھالو۔ ۔18