Guru Granth Sahib Translation Project

Guru Granth Sahib Urdu Page 1380

Page 1380

ਬੁਢਾ ਹੋਆ ਸੇਖ ਫਰੀਦੁ ਕੰਬਣਿ ਲਗੀ ਦੇਹ ॥ شیخ فرید اب بوڑھے ہو چکے ہیں، بڑھاپے کی وجہ سے جسم کانپنے لگا ہے۔
ਜੇ ਸਉ ਵਰ੍ਹ੍ਹਿਆ ਜੀਵਣਾ ਭੀ ਤਨੁ ਹੋਸੀ ਖੇਹ ॥੪੧॥ اگر سو برس بھی زندگی ملے، تب بھی یہ جسم آخرکار مٹی بن جائے گا 41
ਫਰੀਦਾ ਬਾਰਿ ਪਰਾਇਐ ਬੈਸਣਾ ਸਾਂਈ ਮੁਝੈ ਨ ਦੇਹਿ ॥ فرید کہتے ہیں: اے رب! مجھے کسی پرائے در پر نہ بیٹھنے دینا یعنی کسی پر منحصر مت رہنا۔
ਜੇ ਤੂ ਏਵੈ ਰਖਸੀ ਜੀਉ ਸਰੀਰਹੁ ਲੇਹਿ ॥੪੨॥ اگر تُو مجھے ایسے ہی رکھے گا، تو بہتر ہے کہ میری جان ہی لے لے۔ 42
ਕੰਧਿ ਕੁਹਾੜਾ ਸਿਰਿ ਘੜਾ ਵਣਿ ਕੈ ਸਰੁ ਲੋਹਾਰੁ ॥ فرید کہتے ہیں: ایک شخص کاندھے پر کلہاڑی اور سر پر پانی کا گھڑا لیے جنگل کی طرف جا رہا ہے۔
ਫਰੀਦਾ ਹਉ ਲੋੜੀ ਸਹੁ ਆਪਣਾ ਤੂ ਲੋੜਹਿ ਅੰਗਿਆਰ ॥੪੩॥ اے لوہار! تو جس درخت کو کاٹنا چاہتا ہے اس کے نیچے میں بیٹھا ہوں۔ فرید جی کہتے ہیں کہ میں اپنے مالک کو تلاش کر رہا ہوں اور وہ لکڑیاں اور کوئلے ڈھونڈ رہا ہے 43
ਫਰੀਦਾ ਇਕਨਾ ਆਟਾ ਅਗਲਾ ਇਕਨਾ ਨਾਹੀ ਲੋਣੁ ॥ (بابا فرید جی امیر یا غریب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں) اے فرید! کسی کے پاس آٹا ضرورت سے زیادہ ہے اور کسی کے پاس نمک بھی نہیں۔
ਅਗੈ ਗਏ ਸਿੰਞਾਪਸਨਿ ਚੋਟਾਂ ਖਾਸੀ ਕਉਣੁ ॥੪੪॥ لیکن آگے جا کر ہی پتہ چلے گا کہ ان دونوں میں سے کس نے نجات پائی اور کس نے سزا پائی۔ 44۔
ਪਾਸਿ ਦਮਾਮੇ ਛਤੁ ਸਿਰਿ ਭੇਰੀ ਸਡੋ ਰਡ ॥ جس کے پاس نقارے، سر پر چھتر،۔بینڈ باجے اور تعریف کرنے والے موجود تھے۔
ਜਾਇ ਸੁਤੇ ਜੀਰਾਣ ਮਹਿ ਥੀਏ ਅਤੀਮਾ ਗਡ ॥੪੫॥ وہ بھی آخرکار قبروں میں جا سوئے۔اور یتیموں کے ساتھ شمار ہونے لگے 45۔
ਫਰੀਦਾ ਕੋਠੇ ਮੰਡਪ ਮਾੜੀਆ ਉਸਾਰੇਦੇ ਭੀ ਗਏ ॥ اے فرید! خوبصورت گھر، محل اور عمارتیں بنانے والے بھی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔
ਕੂੜਾ ਸਉਦਾ ਕਰਿ ਗਏ ਗੋਰੀ ਆਇ ਪਏ ॥੪੬॥ وہ بھی جھوٹے سودے کرتے ہوئے قبروں میں جا گرے 46۔
ਫਰੀਦਾ ਖਿੰਥੜਿ ਮੇਖਾ ਅਗਲੀਆ ਜਿੰਦੁ ਨ ਕਾਈ ਮੇਖ ॥ اے فرید! یہ جسم کپڑے کی مانند ہے، جسے سینے کے لیے کئی تار لگے ہیں، لیکن جان کو کوئی تار یا ٹانکہ نہیں لگا۔
ਵਾਰੀ ਆਪੋ ਆਪਣੀ ਚਲੇ ਮਸਾਇਕ ਸੇਖ ॥੪੭॥ سب کو اپنے اپنے وقت پر جانا ہے، صوفی ہو یا شیخ، سب نے دنیا کو چھوڑ دیا۔ 47
ਫਰੀਦਾ ਦੁਹੁ ਦੀਵੀ ਬਲੰਦਿਆ ਮਲਕੁ ਬਹਿਠਾ ਆਇ ॥ اے فرید! جیسے ہی دونوں آنکھوں کے چراغ روشن ہوتے ہیں، موت کا فرشتہ آ کر بیٹھ جاتا ہے۔
ਗੜੁ ਲੀਤਾ ਘਟੁ ਲੁਟਿਆ ਦੀਵੜੇ ਗਇਆ ਬੁਝਾਇ ॥੪੮॥ وہ جسم کے قلعے پر قبضہ کر لیتا ہے۔اور روح کو لوٹ کر آنکھوں کی روشنی بجھا دیتا ہے یعنی جسم کو بے جان بنا کر آنکھوں کی بینائی لے گیا۔ 48۔
ਫਰੀਦਾ ਵੇਖੁ ਕਪਾਹੈ ਜਿ ਥੀਆ ਜਿ ਸਿਰਿ ਥੀਆ ਤਿਲਾਹ ॥ فرید کہتے ہیں: دیکھو کپاس کے ساتھ کیا ہوا، (اُسے بیلنے میں بیلا گیا) تلوں کا کی کیا حالت ہوئی؟ (کولہو میں پیس کر تیل نکال لیا گیا)
ਕਮਾਦੈ ਅਰੁ ਕਾਗਦੈ ਕੁੰਨੇ ਕੋਇਲਿਆਹ ॥ گنے کو بیلنے میں ڈال کر رس نکال دیا اور کاغذ کو بھی جس طرح پیرا جاتا ہے۔ ہانڈی کو بار بار آگ پر رکھ کر کھانا پکایا جاتا ہے اور کوئلہ کو ہر روز جلایا جاتا ہے۔
ਮੰਦੇ ਅਮਲ ਕਰੇਦਿਆ ਏਹ ਸਜਾਇ ਤਿਨਾਹ ॥੪੯॥ جو بُرے اعمال کرتے ہیں،۔انہیں ایسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں 49
ਫਰੀਦਾ ਕੰਨਿ ਮੁਸਲਾ ਸੂਫੁ ਗਲਿ ਦਿਲਿ ਕਾਤੀ ਗੁੜੁ ਵਾਤਿ ॥ فرید جی مغرور فقیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کندھے پر جائے نماز ہے، گلے میں کفنی ہے، لیکن دل میں چاقو چھپا ہے۔اور منہ میں گڑ جیسی میٹھی باتیں ہیں۔
ਬਾਹਰਿ ਦਿਸੈ ਚਾਨਣਾ ਦਿਲਿ ਅੰਧਿਆਰੀ ਰਾਤਿ ॥੫੦॥ باہر سے نورانی نظر آتے ہیں، مگر دل اندھیری رات جیسا تاریک ہے 50
ਫਰੀਦਾ ਰਤੀ ਰਤੁ ਨ ਨਿਕਲੈ ਜੇ ਤਨੁ ਚੀਰੈ ਕੋਇ ॥ فرید کہتے ہیں: جو لوگ رب میں مکمل رنگے ہوتے ہیں، اگر اُن کا جسم چاک بھی کردیا جائے، تو اُن سے خون نہیں نکلتا۔
ਜੋ ਤਨ ਰਤੇ ਰਬ ਸਿਉ ਤਿਨ ਤਨਿ ਰਤੁ ਨ ਹੋਇ ॥੫੧॥ کیونکہ جو رب میں مگن ہو، اُس کے جسم میں خون باقی نہیں رہتا۔ 51۔
ਮਃ ੩ ॥ محلہ 3۔
ਇਹੁ ਤਨੁ ਸਭੋ ਰਤੁ ਹੈ ਰਤੁ ਬਿਨੁ ਤੰਨੁ ਨ ਹੋਇ ॥ (شری گرو امرداس جی بابا فرید کی مذکورہ اشلوک کی وضاحت کرتے ہیں کہ) یہ جسم مکمل طور پر خون سے بھرا ہوا ہے، خون کے بغیر جسم ہو ہی نہیں سکتا۔
ਜੋ ਸਹ ਰਤੇ ਆਪਣੇ ਤਿਤੁ ਤਨਿ ਲੋਭੁ ਰਤੁ ਨ ਹੋਇ ॥ جو لوگ اپنے مالک کی بندگی میں مگن ہوتے ہیں، ان کے جسم میں یقینی طور لالچ کا خون نہیں ہوتا۔
ਭੈ ਪਇਐ ਤਨੁ ਖੀਣੁ ਹੋਇ ਲੋਭੁ ਰਤੁ ਵਿਚਹੁ ਜਾਇ ॥ رب کے خوف سے جسم کمزور ہو جاتا ہے اور دل سے لالچ نکل جاتا ہے۔
ਜਿਉ ਬੈਸੰਤਰਿ ਧਾਤੁ ਸੁਧੁ ਹੋਇ ਤਿਉ ਹਰਿ ਕਾ ਭਉ ਦੁਰਮਤਿ ਮੈਲੁ ਗਵਾਇ ॥ جیسے آگ میں سونا پاک ہو جاتا ہے، ویسے ہی رب کا خوف گناہوں کی میل کو صاف کرتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਤੇ ਜਨ ਸੋਹਣੇ ਜਿ ਰਤੇ ਹਰਿ ਰੰਗੁ ਲਾਇ ॥੫੨॥ نانک کہتے ہیں: وہی بندے خوبصورت ہیں، جو رب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں 52۔
ਫਰੀਦਾ ਸੋਈ ਸਰਵਰੁ ਢੂਢਿ ਲਹੁ ਜਿਥਹੁ ਲਭੀ ਵਥੁ ॥ فرید کہتے ہیں: ایسا سرور تلاش کرو، جہاں سے سچ کی نعمت حاصل ہو۔
ਛਪੜਿ ਢੂਢੈ ਕਿਆ ਹੋਵੈ ਚਿਕੜਿ ਡੁਬੈ ਹਥੁ ॥੫੩॥ عام تالابوں سے کیا حاصل؟ وہاں تو کیچڑ میں ہاتھ ہی پھنس جائے گا 53۔
ਫਰੀਦਾ ਨੰਢੀ ਕੰਤੁ ਨ ਰਾਵਿਓ ਵਡੀ ਥੀ ਮੁਈਆਸੁ ॥ فرید کہتے ہیں: جوانی میں رب سے میل حاصل نہ کرسکی اور عمر ختم ہونے پر فوت ہوگئی تو
ਧਨ ਕੂਕੇਂਦੀ ਗੋਰ ਮੇਂ ਤੈ ਸਹ ਨਾ ਮਿਲੀਆਸੁ ॥੫੪॥ اب قبر میں بیٹھ کر چیختی ہے، اے رب! میں تجھ سے نہ مل سکی۔ 54۔
ਫਰੀਦਾ ਸਿਰੁ ਪਲਿਆ ਦਾੜੀ ਪਲੀ ਮੁਛਾਂ ਭੀ ਪਲੀਆਂ ॥ فرید کہتے ہیں: سر کے بال، داڑھی، مونچھیں سب سفید ہوگئی ہیں یعنی پڑھاپا آگیا ہے۔
ਰੇ ਮਨ ਗਹਿਲੇ ਬਾਵਲੇ ਮਾਣਹਿ ਕਿਆ ਰਲੀਆਂ ॥੫੫॥ لیکن اے نادان دل! اب بھی تُو خوشیوں اور رنگ رلیوں میں لگا ہوا ہے 55۔
ਫਰੀਦਾ ਕੋਠੇ ਧੁਕਣੁ ਕੇਤੜਾ ਪਿਰ ਨੀਦੜੀ ਨਿਵਾਰਿ ॥ فرید کہتے ہیں: مکان کی چھت پر کب تک دوڑتا پھرے گا؟ یعنی زندگی کا وقت بہت تھوڑا ہے، اپنی نیند کو ترک کردے۔
ਜੋ ਦਿਹ ਲਧੇ ਗਾਣਵੇ ਗਏ ਵਿਲਾੜਿ ਵਿਲਾੜਿ ॥੫੬॥ جتنے دن دیے گئے تھے، وہ سب گزر چکے ہیں۔ 56۔
ਫਰੀਦਾ ਕੋਠੇ ਮੰਡਪ ਮਾੜੀਆ ਏਤੁ ਨ ਲਾਏ ਚਿਤੁ ॥ فرید کہتے ہیں: محل، عمارتیں، کوٹھیاں بنانے میں دل نہ لگا۔
ਮਿਟੀ ਪਈ ਅਤੋਲਵੀ ਕੋਇ ਨ ਹੋਸੀ ਮਿਤੁ ॥੫੭॥ کیونکہ آخرکار تجھے بےحساب مٹی تلے دفن ہونا ہے اور کوئی تیرا ساتھ نہ دے گا۔ 57۔
ਫਰੀਦਾ ਮੰਡਪ ਮਾਲੁ ਨ ਲਾਇ ਮਰਗ ਸਤਾਣੀ ਚਿਤਿ ਧਰਿ ॥ فرید جی دوبارہ متنبہ کرتے ہیں کہ ان عمارتوں اور مال و دولت پر نہ مر مٹ،بلکہ موت کو ہر وقت یاد رکھ کہ وہ یقینی ہے اور ہر کسی کو آنی ہے۔


© 2025 SGGS ONLINE
error: Content is protected !!
Scroll to Top