Guru Granth Sahib Translation Project

Guru Granth Sahib Urdu Page 1376

Page 1376

ਹਾਥ ਪਾਉ ਕਰਿ ਕਾਮੁ ਸਭੁ ਚੀਤੁ ਨਿਰੰਜਨ ਨਾਲਿ ॥੨੧੩॥ میں اپنے ہاتھوں اور پیروں سے سب کام کرتا ہوں، لیکن میرا دل ہر وقت پاک رب میں لگا رہتا ہے 213۔
ਮਹਲਾ ੫ ॥ محلہ 5۔
ਕਬੀਰਾ ਹਮਰਾ ਕੋ ਨਹੀ ਹਮ ਕਿਸ ਹੂ ਕੇ ਨਾਹਿ ॥ گرو ارجن دیو جی نے کبیر جی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں اے کبیر! دنیا میں نہ ہمارا کوئی ہے، نہ ہم کسی کے ساتھی ہیں۔
ਜਿਨਿ ਇਹੁ ਰਚਨੁ ਰਚਾਇਆ ਤਿਸ ਹੀ ਮਾਹਿ ਸਮਾਹਿ ॥੨੧੪॥ جس نے یہ ساری کائنات بنائی ہے، اُسی میں فنا ہو جانا ہے۔ 214۔
ਕਬੀਰ ਕੀਚੜਿ ਆਟਾ ਗਿਰਿ ਪਰਿਆ ਕਿਛੂ ਨ ਆਇਓ ਹਾਥ ॥ کبیر کہتے ہیں: کائنات جیسے کیچڑ میں آٹا گرنے کے بعد کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
ਪੀਸਤ ਪੀਸਤ ਚਾਬਿਆ ਸੋਈ ਨਿਬਹਿਆ ਸਾਥ ॥੨੧੫॥ بس جو وقت رب کے نام میں گزرا، وہی آخری وقت میں ساتھ نبھاتا ہے 215
ਕਬੀਰ ਮਨੁ ਜਾਨੈ ਸਭ ਬਾਤ ਜਾਨਤ ਹੀ ਅਉਗਨੁ ਕਰੈ ॥ اے کبیر! دل سب کچھ جانتا ہے، پھر بھی وہ جانتے بوجھتے گناہ کرتا ہے۔
ਕਾਹੇ ਕੀ ਕੁਸਲਾਤ ਹਾਥਿ ਦੀਪੁ ਕੂਏ ਪਰੈ ॥੨੧੬॥ جس کے ہاتھ میں چراغ ہو، اگر وہ بھی کنویں میں گرجائے،۔تو پھر بھلا کیسے ہو؟ 216۔
ਕਬੀਰ ਲਾਗੀ ਪ੍ਰੀਤਿ ਸੁਜਾਨ ਸਿਉ ਬਰਜੈ ਲੋਗੁ ਅਜਾਨੁ ॥ اے کبیر! میری محبت اُس عقل مند رب سے لگی ہے، لیکن ناسمجھ لوگ مجھے اُس کی عبادت سے روکتے ہیں۔
ਤਾ ਸਿਉ ਟੂਟੀ ਕਿਉ ਬਨੈ ਜਾ ਕੇ ਜੀਅ ਪਰਾਨ ॥੨੧੭॥ جس نے مجھے جان دی، اُس سے رشتہ توڑ کر میں اور کسی سے کیسے جُڑ سکتا ہوں؟ 217
ਕਬੀਰ ਕੋਠੇ ਮੰਡਪ ਹੇਤੁ ਕਰਿ ਕਾਹੇ ਮਰਹੁ ਸਵਾਰਿ ॥ کبیر جی کہتے ہیں: لوگ مکان، کوٹھیاں، منڈپ سجاتے ہیں اور اُسی کے پیچھے اپنی جان کھپا دیتے ہیں۔
ਕਾਰਜੁ ਸਾਢੇ ਤੀਨਿ ਹਥ ਘਨੀ ਤ ਪਉਨੇ ਚਾਰਿ ॥੨੧੮॥ مگر مرنے کے بعد تو بس ساڑھے تین ہاتھ یا چار ہاتھ زمین ہی نصیب ہوتی ہے۔ 218۔
ਕਬੀਰ ਜੋ ਮੈ ਚਿਤਵਉ ਨਾ ਕਰੈ ਕਿਆ ਮੇਰੇ ਚਿਤਵੇ ਹੋਇ ॥ کبیر کہتے ہیں: جو میں سوچتا ہوں، رب ویسا نہیں کرتا، تو پھر میرے سوچنے سے کیا حاصل؟
ਅਪਨਾ ਚਿਤਵਿਆ ਹਰਿ ਕਰੈ ਜੋ ਮੇਰੇ ਚਿਤਿ ਨ ਹੋਇ ॥੨੧੯॥ رب تو وہی کرتا ہے، جو میرے خیال میں بھی نہیں ہوتا۔ 219
ਮਃ ੩ ॥ محلہ 3۔
ਚਿੰਤਾ ਭਿ ਆਪਿ ਕਰਾਇਸੀ ਅਚਿੰਤੁ ਭਿ ਆਪੇ ਦੇਇ ॥ رب ہی انسان کو فکر میں ڈالتا ہے اور وہی اُسے فکر سے آزاد بھی کرتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਸੋ ਸਾਲਾਹੀਐ ਜਿ ਸਭਨਾ ਸਾਰ ਕਰੇਇ ॥੨੨੦॥ گرو نانک کہتے ہیں: اُس رب کی تعریف کرو، جو سب کا خیال رکھتا ہے۔ 220۔
ਮਃ ੫ ॥ محلہ 5۔
ਕਬੀਰ ਰਾਮੁ ਨ ਚੇਤਿਓ ਫਿਰਿਆ ਲਾਲਚ ਮਾਹਿ ॥ پانچویں گرو کبیر کے حوالے سے کہتے ہیں: اے کبیر! تُو رب کا دھیان نہیں کرتا، صرف لالچ میں بھٹکتا ہے۔
ਪਾਪ ਕਰੰਤਾ ਮਰਿ ਗਇਆ ਅਉਧ ਪੁਨੀ ਖਿਨ ਮਾਹਿ ॥੨੨੧॥ گناہ کرتے کرتے ہی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔اور انسان لمحوں میں موت کے منہ میں چلا جاتا ہے 221۔
ਕਬੀਰ ਕਾਇਆ ਕਾਚੀ ਕਾਰਵੀ ਕੇਵਲ ਕਾਚੀ ਧਾਤੁ ॥ کبیر کہتے ہیں: یہ جسم کچی مٹی کی مانند ہے، ایک کچے مادے سے بنا ہوا ہے۔
ਸਾਬਤੁ ਰਖਹਿ ਤ ਰਾਮ ਭਜੁ ਨਾਹਿ ਤ ਬਿਨਠੀ ਬਾਤ ॥੨੨੨॥ اگر اُسے قائم رکھنا چاہتے ہو، تو رب کا بھجن کرو، ورنہ یہ فنا ہو جائے گا۔ 222۔
ਕਬੀਰ ਕੇਸੋ ਕੇਸੋ ਕੂਕੀਐ ਨ ਸੋਈਐ ਅਸਾਰ ॥ کبیر کہتے ہیں: رب کا نام پکارو، بے فکری سے نہ سو جاؤ۔
ਰਾਤਿ ਦਿਵਸ ਕੇ ਕੂਕਨੇ ਕਬਹੂ ਕੇ ਸੁਨੈ ਪੁਕਾਰ ॥੨੨੩॥ رات دن اُس کا نام لو، شاید وہ کبھی تمہاری فریاد سن لے 223۔
ਕਬੀਰ ਕਾਇਆ ਕਜਲੀ ਬਨੁ ਭਇਆ ਮਨੁ ਕੁੰਚਰੁ ਮਯ ਮੰਤੁ ॥ اے کبیر! یہ جسم ایک سیاہ جنگل کی مانند ہے، جس میں دل ایک مست ہاتھی کی طرح بھٹکتا ہے۔
ਅੰਕਸੁ ਗ੍ਯ੍ਯਾਨੁ ਰਤਨੁ ਹੈ ਖੇਵਟੁ ਬਿਰਲਾ ਸੰਤੁ ॥੨੨੪॥ اسے قابو میں کرنے کے لیے علم کا آنکس (ہاتھی قابو کرنے والا آلہ) چاہیے اور وہ صرف کوئی نایاب صادق ہی لگا سکتا ہے۔ 224۔
ਕਬੀਰ ਰਾਮ ਰਤਨੁ ਮੁਖੁ ਕੋਥਰੀ ਪਾਰਖ ਆਗੈ ਖੋਲਿ ॥ اے کبیر! رب کے نام کی قیمتی پونجی کو اپنے منہ کی پوٹلی میں محفوظ رکھو۔
ਕੋਈ ਆਇ ਮਿਲੈਗੋ ਗਾਹਕੀ ਲੇਗੋ ਮਹਗੇ ਮੋਲਿ ॥੨੨੫॥ جب کوئی سمجھدار خریدار ملے، تو اُسے مہنگے دام میں دینا۔ 225۔
ਕਬੀਰ ਰਾਮ ਨਾਮੁ ਜਾਨਿਓ ਨਹੀ ਪਾਲਿਓ ਕਟਕੁ ਕੁਟੰਬੁ ॥ اے کبیر! انسان سارے خاندان کو پالتا ہے، مگر رب کا دھیان نہیں کرتا۔
ਧੰਧੇ ਹੀ ਮਹਿ ਮਰਿ ਗਇਓ ਬਾਹਰਿ ਭਈ ਨ ਬੰਬ ॥੨੨੬॥ وہ دنیا کے دھندوں میں مرجاتا ہے اور باہر تک کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کب دنیا سے چلا گیا۔ 226۔
ਕਬੀਰ ਆਖੀ ਕੇਰੇ ਮਾਟੁਕੇ ਪਲੁ ਪਲੁ ਗਈ ਬਿਹਾਇ ॥ کبیر کہتے ہیں: آنکھ جھپکنے میں پل پل گزر جاتا ہے اور انسان کی عمر ختم ہو جاتی ہے۔
ਮਨੁ ਜੰਜਾਲੁ ਨ ਛੋਡਈ ਜਮ ਦੀਆ ਦਮਾਮਾ ਆਇ ॥੨੨੭॥ پھر بھی دل دنیاوی جال سے نہیں نکلتا اور آخرکار موت کا نقارہ بج اٹھتا ہے۔ 227۔
ਕਬੀਰ ਤਰਵਰ ਰੂਪੀ ਰਾਮੁ ਹੈ ਫਲ ਰੂਪੀ ਬੈਰਾਗੁ ॥ کبیر کہتے ہیں: رب درخت کی مانند ہے اور زہد اُس کا پھل ہے۔
ਛਾਇਆ ਰੂਪੀ ਸਾਧੁ ਹੈ ਜਿਨਿ ਤਜਿਆ ਬਾਦੁ ਬਿਬਾਦੁ ॥੨੨੮॥ صادق اُس درخت کی ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہیں، جنہوں نے سب جھگڑے اور بحثیں ترک کردی ہیں۔ 228۔
ਕਬੀਰ ਐਸਾ ਬੀਜੁ ਬੋਇ ਬਾਰਹ ਮਾਸ ਫਲੰਤ ॥ کبیر کہتے ہیں: ایسا بیج بوؤ جو بارہ مہینے پھل دے۔
ਸੀਤਲ ਛਾਇਆ ਗਹਿਰ ਫਲ ਪੰਖੀ ਕੇਲ ਕਰੰਤ ॥੨੨੯॥ ایسا درخت ہو جس کی چھاؤں ٹھنڈی ہو، جس کا پھل گہرا ہو اور پرندے اُس پر خوشی سے چہچہائیں 226۔
ਕਬੀਰ ਦਾਤਾ ਤਰਵਰੁ ਦਯਾ ਫਲੁ ਉਪਕਾਰੀ ਜੀਵੰਤ ॥ اے کبیر! رب ایک ایسا درخت ہے، جس پر رحم و کرم کا پھل لگا ہے، وہ نفع بخش اور زندہ رکھنے والا ہے۔
ਪੰਖੀ ਚਲੇ ਦਿਸਾਵਰੀ ਬਿਰਖਾ ਸੁਫਲ ਫਲੰਤ ॥੨੩੦॥ صادق پرندے جب دوسرے ملکوں کو چلے جاتے ہیں، تو اُس درخت کے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے۔ 230۔
ਕਬੀਰ ਸਾਧੂ ਸੰਗੁ ਪਰਾਪਤੀ ਲਿਖਿਆ ਹੋਇ ਲਿਲਾਟ ॥ اے کبیر! صرف وہی انسان صادقوں کی صحبت پاتا ہے، جس کی پیشانی پر یہ نصیب پہلے سے لکھا ہوتا ہے۔


© 2025 SGGS ONLINE
error: Content is protected !!
Scroll to Top