Guru Granth Sahib Translation Project

Urdu Classical Page 59

Page 59

ਸਾਹਿਬੁ ਅਤੁਲੁ ਨ ਤੋਲੀਐ ਕਥਨਿ ਨ ਪਾਇਆ ਜਾਇ ॥੫॥ ਵਾਪਾਰੀ ਵਣਜਾਰਿਆ ਆਏ ਵਜਹੁ ਲਿਖਾਇ ॥ ਕਾਰ ਕਮਾਵਹਿ ਸਚ ਕੀ ਲਾਹਾ ਮਿਲੈ ਰਜਾਇ ॥ ਪੂੰਜੀ ਸਾਚੀ ਗੁਰੁ ਮਿਲੈ ਨਾ ਤਿਸੁ ਤਿਲੁ ਨ
ਤਮਾਇ ॥੬॥ ਗੁਰਮੁਖਿ ਤੋਲਿ ਤੋੁਲਾਇਸੀ ਸਚੁ ਤਰਾਜੀ ਤੋਲੁ ॥ ਆਸਾ ਮਨਸਾ ਮੋਹਣੀ ਗੁਰਿ ਠਾਕੀ ਸਚੁ ਬੋਲੁ ॥ ਆਪਿ ਤੁਲਾਏ ਤੋਲਸੀ ਪੂਰੇ ਪੂਰਾ ਤੋਲੁ ॥੭॥ ਕਥਨੈ ਕਹਣਿ ਨ ਛੁਟੀਐ ਨਾ ਪੜਿ ਪੁਸਤਕ ਭਾਰ ॥ ਕਾਇਆ ਸੋਚ ਨ ਪਾਈਐ ਬਿਨੁ ਹਰਿ ਭਗਤਿ ਪਿਆਰ ॥ ਨਾਨਕ ਨਾਮੁ ਨ ਵੀਸਰੈ ਮੇਲੇ ਗੁਰੁ ਕਰਤਾਰ ॥੮॥੯॥
॥੫॥ساہِبُ  اتُلُ  ن  تولیِئےَ  کتھنِ  ن  پائِیا  جاءِ
॥ۄاپاریِ  ۄنھجارِیا  آۓ  ۄجہُ  لِکھاءِ
॥کار  کماۄِہ  سچ  کیِ  لاہا  مِلےَ  رجاءِ
॥੬॥پوُنّجیِ  ساچیِ  گُرُ  مِلےَ  نا  تِسُ  تِلُ  ن  تماءِ
॥گُرمُکھِ  تولِ  تد਼لائِسیِ  سچُ  تراجیِ  تولُ
॥آسا  منسا  موہنھیِ  گُرِ  ٹھاکیِ  سچُ  بولُ
॥੭॥آپِ  تُلاۓ  تولسیِ  پوُرے  پوُرا  تولُ
॥کتھنےَ  کہنھِ  ن  چھُٹیِئےَ  نا  پڑِ  پُستک  بھار
॥کائِیا  سوچ  ن  پائیِئےَ  بِنُ  ہرِ  بھگتِ  پِیار
॥੮॥੯॥نانک  نامُ  ن  ۄیِسرےَ  میلے  گُرُ  کرتار
لفظی معنی:دھن۔ عورت ۔ بیگار۔ بناؤ۔ سجاؤٹ ۔ جو بن ۔جوانی ۔ باد ۔ جھگڑا ۔ خوار۔ ذلِیل ۔ سیجڑی ۔ بِچھونا ۔ گھنسے ۔ زیادہ ۔ سچ بھتار ۔ خاوند کے لیئے خوابگگاہ بِچھونا  ۔ شبد۔ کلام ۔ سہج۔ سکون ۔ سچ ۔ خُدا ۔ گُن چار ۔ با اخلاق ۔ با وصف ۔(2) ورکامنی ۔ زوجہ خاوند ۔ وگسیا ۔ خُؤش ہُوا ۔ ساچے نائے ۔ سچا اِلہٰی نام ۔ (3) منوا۔ غیر سنجیدہ من، گُمراہ ۔ راوے ۔ پیار کرنا ۔ رکت ۔یکسوئی ۔ رل ۔ یکسو ۔ ادھار۔ آسرا ۔ (4) اُپجے ۔پیدا ہونا ۔ کِھن ۔ تھوڑے ۔وقفہ ۔ رَوِرہے۔ جُڑے رہنا ۔ (5) وجہو ۔ تنخواہ ۔مزدُوری ۔  لاہا ۔ نفع ۔ طمع ۔ لالچ ۔ (6)  ترازی ۔ تکڑی ۔ ٹھاکی۔ روکی ۔(7) کھتنے کہن۔ زبانی ۔ باتوں ۔ پستک بھار ۔ نہ فضُول کِتابیں پڑھنے سے ۔(8)
ترجُمہ:خاوند  کے بغیر عورت کا بناؤ شنگار اور جوانی جھگڑا اور ذِلالت ہے ۔ نہ تُجھے خوابگاہ کا آرام اورخُوشی پانی ہے اور بناؤ شنگار اور سجاوٹ فضُول ہے اِس دو خانودوں والی عورت جو طلاق شُدہ بھاری دُکھ اُٹھاتی ہے ۔ اِنسان کے لیئے دِکھاوا شُہرت سب فضُول ہے ۔ جب تک دِل میں خُدا نہ بستا یا ۔اے دِل یاد اِلہٰی و رِیاض اِلہٰی سے ہی سُکھ حاصل ہوگا ۔ مُرشد کے بغیر اِلہٰی پیار نہیں ہو سکتا اور کلام مُرشد سے پیار پیدا ہوتا ہے ۔ خِدمت مُرشد سے آرام و آسائش مِلتی ہے ۔ رُوحانی سکون مِلتا ہے ۔ اوراِلہٰی پیار ہی اُسکا شنگار اور عجافٹ ہے ۔اور سچے پیار سے ہی اِلہٰی مِلاپ ہو سکتا ہے ۔ قُربت وصُحبت مُرشد اور اُسکی حضُوری میں رہ کر ہی اِلہٰی رِشتہ مُشترک و اشتراک اور پہچان ہو سکتی ہے ۔ وہ باحُسن اخلاق و اوصاف اِلہٰی سے مُرشد ہی مِلا سکتا ہے ۔(2) شیخ سعدی
ہر کہ خدمت کرد  ۔ او مخدوم شد
ہر کہ خودرادید   او مخدوم شد
اے اِنسان تُو سچ اپنا جو اپنا تا ہے خُدا اُسے اپنا پیار پریم عِنایت کرتا ہے اور اپنا پیارا کر لیتا ہے ۔ دِل و جان سچ سے مخمور ہو کر شگفتہ حال ہو جاتے ہیں ۔ جِسکی قِیمت بیان نہیں کی جا سکتی ۔ دِل میں خُدا بس کر نام سے پاک رُوح اور نُورانی ہو جاتا ہے ۔(3) اگر اِنسان کے خیالات جو دِل میں پیدا ہوتے ہیں تبدیل ہوکر پاک ہو جائیں تو خُدا دِل میں بس جاتا ہے ۔ جیسے گلے میں موتیوں کا ہار ایک دھاگے میں پرونے کی وجہ سے ایک ہے ۔ ایسے ہی اپنی ہوش و ہواس کو خُدا میں مرکوز کرنے سے اِنسان خُدا سے یکسو ہوجاتا ہے ۔مگر رُوحانی سکون پاکدامن خُدا رسِیدہ کی صُحبت و قُربت پناہ مُرشد اور نام کی رِیاض کے سہارے مِلتا ہے ۔ (4)اِنسان کے دِل میں خیالات آتے ہیں جلدی ہی مِٹ جاتے ہیں ۔ اور جلدی ہی پریشان ہوتا رہتا ہے پل میں رتی پل میں ماشہ پل میں تولا ) یعنی کبھی زمین پر کھبی آسمان یعنی حرص وہوا میں ڈگمگاتا رہتا ہے اگر دِل کو کلام کی پہچان ہو جاتی ہے تو اُسکی بھٹکن ختم ہو جاتی ہے ۔ تب اُسے رُوحانی موت نہیں ستاتی ۔ خُدا آقا لا محدُود ہے اُسکا انداز تول اور پیمائش نہیں ہو سکتی نہ زبانی باتوں سے مِلاپ ہو سکتا ہے ۔(5) تمام جانداروں کا خُدائی کی طرف سے روزینہ اوررزق مقرر ہوتا ہے ۔ مُراد ہر زندگی سانس اور نعمتیں یہ زندگی کا سودا گر اِنسان خُدا سے پاتا ہے اور جو خُدا کی خِدمت و کار سر انجام دیتے ہیں ۔ وہ اِلہٰی رضا کے مُطابق مُنافع کماتے ہیں اُن کا مُرشد سے مِلاپ ہو جاتا ہے ۔ جِس سے ذرہ بھر لالچ نہیں ہے ان کو رُوحانی سچی دولت مِلتی ہے ۔(6)مُرید مُرشد زندگی کی نیکی بدیوں کو سچ کے ترازو اور سچ کے بٹوں سے تلواتا ہے ۔ پہچان کرتا ہے اُسکی قدر و قِیمت سمجھتا ہے ۔ اور سچے فرمان سے حسین خواہشوں اور اِرادوں پر روک لگاتا ہے ۔ یہ اِلہٰی تول کبھی بڑھتا اور گھٹتا نہیں جیسے خُدا خُود تلاتا ہے ۔ (7)نہ تُو زبانی باتوں سے نہ زیادہ کِتابوں کے مُطالعہ سے نِجات مِلتی ہے ۔ اگر اِلہٰی عِبادت نہیں اِلہٰی عِشق نہیں تو بیرونی جِسمانی پاکیزگی سے اِلہٰی مِلاپ حاصل نہ ہوگا ۔ اے نانک کلام مُرشد سے ہی خوئش تحقیق پہچان و پڑتال ہو سکتی ہے ۔ وہ خُودی و خوئیش ستائش نہیں کرتا ۔ جسے نام نہیں بُھولتا اُسے مُرشد خُدا سے مِلا دیتا ہے ۔

ਸਿਰੀਰਾਗੁ ਮਹਲਾ ੧ ॥ ਸਤਿਗੁਰੁ ਪੂਰਾ ਜੇ ਮਿਲੈ ਪਾਈਐ ਰਤਨੁ ਬੀਚਾਰੁ ॥ ਮਨੁ ਦੀਜੈ ਗੁਰ ਆਪਣੇ ਪਾਈਐ ਸਰਬ ਪਿਆਰੁ ॥ ਮੁਕਤਿ ਪਦਾਰਥੁ ਪਾਈਐ ਅਵਗਣ ਮੇਟਣਹਾਰੁ ॥੧॥ ਭਾਈ ਰੇ ਗੁਰ ਬਿਨੁ ਗਿਆਨੁ ਨ ਹੋਇ ॥ ਪੂਛਹੁ ਬ੍ਰਹਮੇ ਨਾਰਦੈ ਬੇਦ ਬਿਆਸੈ ਕੋਇ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ ਗਿਆਨੁ ਧਿਆਨੁ ਧੁਨਿ ਜਾਣੀਐ ਅਕਥੁ ਕਹਾਵੈ ਸੋਇ ॥ ਸਫਲਿਓ ਬਿਰਖੁ ਹਰੀਆਵਲਾ ਛਾਵ ਘਣੇਰੀ ਹੋਇ ॥ ਲਾਲ ਜਵੇਹਰ ਮਾਣਕੀ ਗੁਰ ਭੰਡਾਰੈ ਸੋਇ ॥੨॥ ਗੁਰ ਭੰਡਾਰੈ ਪਾਈਐ ਨਿਰਮਲ ਨਾਮ ਪਿਆਰੁ ॥ ਸਾਚੋ ਵਖਰੁ ਸੰਚੀਐ ਪੂਰੈ ਕਰਮਿ ਅਪਾਰੁ ॥ ਸੁਖਦਾਤਾ ਦੁਖ ਮੇਟਣੋ ਸਤਿਗੁਰੁ ਅਸੁਰ ਸੰਘਾਰੁ ॥੩॥ ਭਵਜਲੁ ਬਿਖਮੁ ਡਰਾਵਣੋ ਨਾ ਕੰਧੀ ਨਾ ਪਾਰੁ ॥ ਨਾ ਬੇੜੀ ਨਾ ਤੁਲਹੜਾ ਨਾ ਤਿਸੁ ਵੰਝੁ ਮਲਾਰੁ ॥ ਸਤਿਗੁਰੁ ਭੈ ਕਾ ਬੋਹਿਥਾ ਨਦਰੀ ਪਾਰਿ ਉਤਾਰੁ ॥੪॥ ਇਕੁ ਤਿਲੁ ਪਿਆਰਾ ਵਿਸਰੈ ਦੁਖੁ ਲਾਗੈ ਸੁਖੁ ਜਾਇ ॥ ਜਿਹਵਾ ਜਲਉ ਜਲਾਵਣੀ ਨਾਮੁ ਨ ਜਪੈ ਰਸਾਇ ॥ ਘਟੁ ਬਿਨਸੈ ਦੁਖੁ ਅਗਲੋ ਜਮੁ ਪਕੜੈ ਪਛੁਤਾਇ ॥੫॥ ਮੇਰੀ ਮੇਰੀ ਕਰਿ ਗਏ ਤਨੁ ਧਨੁ ਕਲਤੁ ਨ ਸਾਥਿ ॥ ਬਿਨੁ ਨਾਵੈ ਧਨੁ ਬਾਦਿ ਹੈ ਭੂਲੋ ਮਾਰਗਿ ਆਥਿ ॥ ਸਾਚਉ ਸਾਹਿਬੁ ਸੇਵੀਐ ਗੁਰਮੁਖਿ ਅਕਥੋ ਕਾਥਿ ॥੬॥ ਆਵੈ ਜਾਇ ਭਵਾਈਐ ਪਇਐ ਕਿਰਤਿ ਕਮਾਇ ॥ ਪੂਰਬਿ ਲਿਖਿਆ ਕਿਉ ਮੇਟੀਐ ਲਿਖਿਆ ਲੇਖੁ ਰਜਾਇ ॥ ਬਿਨੁ ਹਰਿ ਨਾਮ ਨ ਛੁਟੀਐ ਗੁਰਮਤਿ ਮਿਲੈ ਮਿਲਾਇ ॥੭॥ ਤਿਸੁ ਬਿਨੁ ਮੇਰਾ ਕੋ ਨਹੀ ਜਿਸ ਕਾ ਜੀਉ ਪਰਾਨੁ ॥ ਹਉਮੈ ਮਮਤਾ ਜਲਿ ਬਲਉ ਲੋਭੁ ਜਲਉ ਅਭਿਮਾਨੁ ॥ ਨਾਨਕ ਸਬਦੁ ਵੀਚਾਰੀਐ ਪਾਈਐ ਗੁਣੀ ਨਿਧਾਨੁ ॥੮॥੧੦॥
 سِریِراگُ  مہلا  
॥ستِگُرُ  پوُرا  جے  مِلےَ  پائیِئےَ  رتنُ  بیِچارُ
॥منُ  دیِجےَ  گُر  آپنھے  پائیِئےَ  سرب  پِیارُ
॥੧॥مُکتِ  پدارتھُ  پائیِئےَ  اۄگنھ  میٹنھہارُ
॥بھائیِ  رے  گُر  بِنُ  گِیانُ  ن  ہوءِ
॥੧॥  رہاءُ  ॥پوُچھہُ  ب٘رہمے  ناردےَ  بید  بِیاسےَ  کوءِ
॥گِیانُ  دھِیانُ  دھُنِ  جانھیِئےَ  اکتھُ  کہاۄےَ  سوءِ
॥سپھلِئو  بِرکھُ  ہریِیاۄلا  چھاۄ  گھنھیریِ  ہوءِ
॥੨॥لال  جۄیہر  مانھکیِ  گُر  بھنّڈارےَ  سوءِ
॥گُر  بھنّڈارےَ  پائیِئےَ  نِرمل  نام  پِیارُ
॥ساچو  ۄکھرُ  سنّچیِئےَ  پوُرےَ  کرمِ  اپارُ
॥੩॥سُکھداتا  دُکھ  میٹنھو  ستِگُرُ  اسُر  سنّگھارُ
॥بھۄجلُ  بِکھمُ  ڈراۄنھو  نا  کنّدھیِ  نا  پارُ
॥نا  بیڑیِ  نا  تُلہڑا  نا  تِسُ  ۄنّجھُ  ملارُ
॥੪॥ستِگُرُ  بھےَ  کا  بوہِتھا  ندریِ  پارِ  اُتارُ
॥اِکُ  تِلُ  پِیارا  ۄِسرےَ  دُکھُ  لاگےَ  سُکھُ  جاءِ
॥جِہۄا  جلءُ  جلاۄنھیِ  نامُ  ن  جپےَ  رساءِ
॥੫॥گھٹُ  بِنسےَ  دُکھُ  اگلو  جمُ  پکڑےَ  پچھُتاءِ
॥میریِ  میریِ  کرِ  گۓ  تنُ  دھنُ  کلتُ  ن  ساتھِ
॥بِنُ  ناۄےَ  دھنُ  بادِ  ہےَ  بھوُلو  مارگِ  آتھِ
॥੬॥ساچءُ  ساہِبُ  سیۄیِئےَ  گُرمُکھِ  اکتھو  کاتھِ
॥آۄےَ  جاءِ  بھۄائیِئےَ  پئِئےَ  کِرتِ  کماءِ
॥پوُربِ  لِکھِیا  کِءُ  میٹیِئےَ  لِکھِیا  لیکھُ  رجاءِ
॥੭॥بِنُ  ہرِ  نام  ن  چھُٹیِئےَ  گُرمتِ  مِلےَ  مِلاءِ
॥تِسُ  بِنُ  میرا  کو  نہیِ  جِس  کا  جیِءُ  پرانُ
॥ہئُمےَ  ممتا  جلِ  بلءُ  لوبھُ  جلءُ  ابھِمانُ
॥੮॥੧੦॥نانک  سبدُ  ۄیِچاریِئےَ  پائیِئےَ  گَنھیِ  نِدھانُ
لَفِظی معنی:سب پیار ۔سب کو پیار کرنیوالا (خُدا) ۔ مُکت ۔ نِجات ۔چُھٹکارا ۔ پدارتھ ۔ نعمت ۔گیان ۔ عِلم جاننا ۔ اکتھ ۔ناقابِل بیان ۔ کہاولے ۔ کہلاتا ہے ۔ سوئے ۔ وہی ۔ سپھلیؤ ۔ براور ۔ پھل دینے والا ۔ مانکی ۔موتی ۔ (2) بھنڈارے ۔ خزانے ۔ سنچیئے ۔اِکھٹے کرنا ۔ کرم ۔ بخشِشِ ۔ اسُر۔دیو۔ جن ۔(3) بھوجل ۔ خوفناک سمندر ۔ بِکہم ۔ مُشکل ۔ دُشوار ۔گندھی ۔کِنارہ ۔ مِلا ر ۔صلاح ۔ بھے کا بوتھا ۔خوف سے بچانے والا جہاز ۔(4) جلؤ ۔ جل جائے ۔ جلاونی ۔ جلنے کے قابل ۔ رسائے ۔ پرلُطف۔ اگلو ۔ زیادہ ۔(5) کللت ۔ عورت ۔ باد۔ جھگڑا ۔ مارگ۔ راستہ ۔ آتھ ۔ مایا ،مالیات۔ (7) کاتھ ۔ صِفت صلاح کرنا پیئے کرت پہلے کیے اعمال ۔ کمائے کام ۔(8) جیؤ۔ جاندار ۔ گُنی نِدھان۔ اوصاف کا خزانہ  ۔(8)
ترجُمہ:کامِل مُرشد کے مِلاپ سے قِیمتی اور بیش قِیمت خیالات ہو جاتے ہیں اسے اپنا من حوالے کر دو اور اُسے مُکمل پیار کؤ وہ نِجات دِلاتا ہے ۔ اوصف بد مِٹا تا ہے ۔ اے برادراُن مُرشد کے بغیر عِلم حاصل نہیں ہوتا ۔ خوآہ نارد رِشی سے ویدوں کے بکہنے والے بیاس سے جا پُوچُھو ۔ کامِل مُرشد ہی عِلم ودِھیان (ہوش) دھن (محویت) کی سمجھ دیتا ہے ۔ جو ناقابِل بیان ہے ۔ مُرشد ایک پھلدار درخت ہےسر بز سایہ دار جِسکا سایہ نِہایت گہرا ہے ۔ اُسکے پاس قِیمتی خیالات کاخزانہ ہے ۔(2) مُرشد کے خزانے سے پاک نام کی سچ حق وحقیقت مُحبت مِلتی ہے ۔ جو بُلند قِسمت اور جِس پر اِلہٰی کرم و عِنایت ہے یہ سوچا پاک سودا خریدتا ہے ۔ مُرشد سُکھ دینے والا عذاب مِٹانے والا گُناہگار جِنوں کو گُناہوں کو مارنے والا ہےمُراد خیالات بد کو مِٹانے والا ہے ۔(3) یہ عالَم ایک خوفناک سمندر ہے جِسکا کوئی کِنارہ نہیں ۔ اُسے پار کر نے کے لیئے نہ کوئی بیڑی نہ تلا۔ اور نہ ملاح نہ چپُو۔ سچا مُرشد اُس خوف کے لیئے ایک جہاز ہے ۔ جو نظر عِنایت سے پارکرا دیتا ہے ۔(4) ذرا سے وقفے کے لیئے بُھول جانے پر سُکھ ختم ہو جاتا ہے عذاب مِٹتا ہے ایسی زبان جلنے کے قابِل ہے جل کیوں نہ جائے جو لُطف  و لذت اورمزے سے نام کی رِیاض نہیں کرتی ۔ اِلہٰی مُحبت کے بغیر جِسم فناہ ہوتا ہے ۔ عذاب آتا ہے اِلہٰی کوتوال پکڑ لیتا ہے ۔ گِرفتار ہو جاتا ہے تو پچھتاتا ہے ۔ (5) اِنسان اپنے بدن دولت ۔ عورت کو اپنی اپنی کہتا ہے مگر ساتھ نہیں جاتی نہ نِبھاتی ہے ۔ اِلہٰی نام کے بغیر یہ دولت بیکار رہے ۔ دولت کے راستے کا راہگیر اِنسان ایک بُھول میں پڑ جاتا ہے ۔ سچے خُدا کی خِدمت کرؤ ۔ مُرید مُرشد کے وسیلے سے ہی اِلہٰی حمد و ثناہ ہو سکتی ہے ۔(6) کیئے ہُوئے اعمال جو پہلے سے پیشانی پر یا جو اعمالنامے میں تحریر نہیں مِٹائے نہیں جا سکتے ۔ جو اِلہٰی رضا سے تحریر ہوتے ہیں ۔ اِلہٰی نام کے بغیر نِجات نہیں مِلتی سبق مُرشد سے مِلاپ ہوتا ہے ۔(7) خُدا کے بغیر اِنسان تناسُخ میں پڑارہتا ہے جِس نے یہ زِندگی اور دِل و جان کی بخشِشِ کی ہے اُسکے بغیر اِنسان کے لیئے کوئی سہارا نہیں ۔ اے خُدا میری یہ خُودی اور ملکیتی خیال اور لالچ اور تکبر غُرور جل کیوں نہ جائے ۔ اے نانک کلام اور سبق مُرشد سے اوصاف کا خزانہ مِلتا ہے ۔

ਸਿਰੀਰਾਗੁ ਮਹਲਾ ੧ ॥ ਰੇ ਮਨ ਐਸੀ ਹਰਿ ਸਿਉ ਪ੍ਰੀਤਿ ਕਰਿ ਜੈਸੀ ਜਲ ਕਮਲੇਹਿ ॥ ਲਹਰੀ ਨਾਲਿ ਪਛਾੜੀਐ ਭੀ ਵਿਗਸੈ ਅਸਨੇਹਿ ॥ ਜਲ ਮਹਿ  ਜੀਅ ਉਪਾਇ ਕੈ ਬਿਨੁ ਜਲ ਮਰਣੁ ਤਿਨੇਹਿ ॥੧॥
 سِریِراگُ  مہلا  
॥رے  من  ایَسیِ  ہرِ  سِءُ  پ٘ریِتِ  کرِ  جیَسیِ  جل  کملیہِ 
॥لہریِ  نالِ  پچھاڑیِئےَ  بھیِ  ۄِگسےَ  اسنیہِ
॥੧॥جل  مہِ  جیِء  اُپاءِ  کےَ  بِنُ  جل  مرنھُ  تِنیہِ

© 2017 SGGS ONLINE
error: Content is protected !!
Scroll to Top