Guru Granth Sahib Translation Project

Guru Granth Sahib Urdu Page 1161

Page 1161

ਤਬ ਪ੍ਰਭ ਕਾਜੁ ਸਵਾਰਹਿ ਆਇ ॥੧॥ رب سب کام سنوار دیتا ہے۔ 1۔
ਐਸਾ ਗਿਆਨੁ ਬਿਚਾਰੁ ਮਨਾ ॥ اے میرے دل! ایسا علم اور غور و فکر اپنا،
ਹਰਿ ਕੀ ਨ ਸਿਮਰਹੁ ਦੁਖ ਭੰਜਨਾ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ کیوں نہ رب کو یاد کرتا، جو سبھی دکھوں کا مٹانے والا ہے؟ 1۔ وقفہ۔
ਜਬ ਲਗੁ ਸਿੰਘੁ ਰਹੈ ਬਨ ਮਾਹਿ ॥ جب تک کبر نما شیر جسم کے جنگل میں رہتا ہے،
ਤਬ ਲਗੁ ਬਨੁ ਫੂਲੈ ਹੀ ਨਾਹਿ ॥ اس وقت جسم نما جنگل پھلتا پھولتا نہیں۔
ਜਬ ਹੀ ਸਿਆਰੁ ਸਿੰਘ ਕਉ ਖਾਇ ॥ جیسے ہی لومڑی (عاجزی) شیر (غرور) کو کھا جاتی ہے، تو
ਫੂਲਿ ਰਹੀ ਸਗਲੀ ਬਨਰਾਇ ॥੨॥ جنگل میں ہر طرف خوش حالی آجاتی ہے۔ 2۔
ਜੀਤੋ ਬੂਡੈ ਹਾਰੋ ਤਿਰੈ ॥ جو دنیا کو جیتنے میں لگا رہتا ہے، وہی ڈوب جاتا ہے، اور جو خود کو ہارا ہوا مانتا ہے، وہی پار لگ جاتا ہے۔
ਗੁਰ ਪਰਸਾਦੀ ਪਾਰਿ ਉਤਰੈ ॥ صرف گرو کے کرم سے ہی انسان پار اُترتا ہے۔
ਦਾਸੁ ਕਬੀਰੁ ਕਹੈ ਸਮਝਾਇ ॥ کبیر جی سمجھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
ਕੇਵਲ ਰਾਮ ਰਹਹੁ ਲਿਵ ਲਾਇ ॥੩॥੬॥੧੪॥ صرف رب کے دھیان میں مگن رہو۔ 3۔ 6۔ 14۔
ਸਤਰਿ ਸੈਇ ਸਲਾਰ ਹੈ ਜਾ ਕੇ ॥ جس اللہ پاک کے سات ہزار فرشتے ہیں،
ਸਵਾ ਲਾਖੁ ਪੈਕਾਬਰ ਤਾ ਕੇ ॥ حضرت آدم سے لے کر محمدﷺ تک ایک لاکھ پچیس ہزار پیغمبر ہیں۔
ਸੇਖ ਜੁ ਕਹੀਅਹਿ ਕੋਟਿ ਅਠਾਸੀ ॥ اٹھاسی کروڑ شیخ کہے جاتے ہیں اور
ਛਪਨ ਕੋਟਿ ਜਾ ਕੇ ਖੇਲ ਖਾਸੀ ॥੧॥ چھپن کروڑ جس کے خاص بندے ہیں۔ 1۔
ਮੋ ਗਰੀਬ ਕੀ ਕੋ ਗੁਜਰਾਵੈ ॥ مجھ فقیر کی فریاد ان تک کون پہنچائے گا؟
ਮਜਲਸਿ ਦੂਰਿ ਮਹਲੁ ਕੋ ਪਾਵੈ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ چوں کہ اس کی مجلس بہت دور ہے، اس کے دربار تک کون پہنچ سکتا ہے؟ 1۔ وقفہ۔
ਤੇਤੀਸ ਕਰੋੜੀ ਹੈ ਖੇਲ ਖਾਨਾ ॥ تینتیس کروڑ دیوی دیوتا بھی اسی کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں،
ਚਉਰਾਸੀ ਲਖ ਫਿਰੈ ਦਿਵਾਨਾਂ ॥ چوراسی لاکھ مخلوقات بھی اسی کے عشق میں سرگرداں ہیں۔
ਬਾਬਾ ਆਦਮ ਕਉ ਕਿਛੁ ਨਦਰਿ ਦਿਖਾਈ ॥ جب حضرت آدم نے حکم کی خلاف ورزی کی، تو اللہ نے انہیں خبردار کیا اور
ਉਨਿ ਭੀ ਭਿਸਤਿ ਘਨੇਰੀ ਪਾਈ ॥੨॥ اور پھر انہیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا۔ 2۔
ਦਿਲ ਖਲਹਲੁ ਜਾ ਕੈ ਜਰਦ ਰੂ ਬਾਨੀ ॥ جس شخص کے دل میں شک اور خوف پایا جاتا ہے، اس کا چہرہ زرد ہو جاتا ہے۔
ਛੋਡਿ ਕਤੇਬ ਕਰੈ ਸੈਤਾਨੀ ॥ اگر وہ قرآن کی تعلیمات کو چھوڑ کر شیطانی کام کرتا ہے،
ਦੁਨੀਆ ਦੋਸੁ ਰੋਸੁ ਹੈ ਲੋਈ ॥ وہ دنیا کو الزام دیتا ہے اور دوسروں پر غصہ کرتا ہے،
ਅਪਨਾ ਕੀਆ ਪਾਵੈ ਸੋਈ ॥੩॥ مگر آخرکار اپنے کیے کا ہی نتیجہ پاتا ہے۔ 3۔
ਤੁਮ ਦਾਤੇ ਹਮ ਸਦਾ ਭਿਖਾਰੀ ॥ اے خدا! تُو عطا کرنے والا ہے اور ہم ہمیشہ تیرے بھکاری ہیں۔
ਦੇਉ ਜਬਾਬੁ ਹੋਇ ਬਜਗਾਰੀ ॥ اگر تیرے دیے ہوئے رزق کے بعد بھی تیرا انکار کریں، تو ہم گنہگار بن جائیں گے۔
ਦਾਸੁ ਕਬੀਰੁ ਤੇਰੀ ਪਨਹ ਸਮਾਨਾਂ ॥ کبیر جی دعا کرتے ہیں کہ اے مہربان صادق رب! تیری پناہ جنت کی مانند ہے۔
ਭਿਸਤੁ ਨਜੀਕਿ ਰਾਖੁ ਰਹਮਾਨਾ ॥੪॥੭॥੧੫॥ مجھے اسی کے پاس رکھنا۔ 4۔ 7۔ 15۔
ਸਭੁ ਕੋਈ ਚਲਨ ਕਹਤ ਹੈ ਊਹਾਂ ॥ سبھی لوگ وہاں جانے کو کہتے ہیں،
ਨਾ ਜਾਨਉ ਬੈਕੁੰਠੁ ਹੈ ਕਹਾਂ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ مگر مجھے معلوم نہیں م کہ وہ جگہ کہاں ہے۔ 1۔ وقفہ۔
ਆਪ ਆਪ ਕਾ ਮਰਮੁ ਨ ਜਾਨਾਂ ॥ کوئی بھی اپنے اصلی مقام کو نہیں جانتا اور
ਬਾਤਨ ਹੀ ਬੈਕੁੰਠੁ ਬਖਾਨਾਂ ॥੧ بس باتوں میں ہی جنت کا بیان کرتے ہیں۔ 1۔
ਜਬ ਲਗੁ ਮਨ ਬੈਕੁੰਠ ਕੀ ਆਸ ॥ جب تک دل میں جنت کی خواہش باقی ہے،
ਤਬ ਲਗੁ ਨਾਹੀ ਚਰਨ ਨਿਵਾਸ ॥੨॥ تب تک رب کے چرنوں میں ٹھہراؤ ممکن نہیں۔ 2۔
ਖਾਈ ਕੋਟੁ ਨ ਪਰਲ ਪਗਾਰਾ ॥ وہاں کوئی خندق یا محفوظ قلعہ نہیں ہے،
ਨਾ ਜਾਨਉ ਬੈਕੁੰਠ ਦੁਆਰਾ ॥੩॥ اور نہ ہی میں جنت کے دروازے کے بارے میں جانتا ہوں۔ 3۔
ਕਹਿ ਕਮੀਰ ਅਬ ਕਹੀਐ ਕਾਹਿ ॥ کبیر جی فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کیا کہا جائے کہ
ਸਾਧਸੰਗਤਿ ਬੈਕੁੰਠੈ ਆਹਿ ॥੪॥੮॥੧੬॥ نیکو کار لوگوں کی صحبت ہی اصل جنت ہے۔ 4۔ 8۔ 16۔
ਕਿਉ ਲੀਜੈ ਗਢੁ ਬੰਕਾ ਭਾਈ ॥ اے بھائی! یہ جسمانی قلعہ کیسے جیتا جائے؟
ਦੋਵਰ ਕੋਟ ਅਰੁ ਤੇਵਰ ਖਾਈ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥ کیونکہ اس میں چیتنا (اندرونی دیوار) اور تینوں گنوں (راجر، تما، ستو) کی خندق موجود ہے۔ 1۔ وقفہ۔
ਪਾਂਚ ਪਚੀਸ ਮੋਹ ਮਦ ਮਤਸਰ ਆਡੀ ਪਰਬਲ ਮਾਇਆ ॥ پانچ عناصر اور پچیس تاتوں کی حکمرانی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ مایا، غرور اور حسد کا غلبہ ہے۔
ਜਨ ਗਰੀਬ ਕੋ ਜੋਰੁ ਨ ਪਹੁਚੈ ਕਹਾ ਕਰਉ ਰਘੁਰਾਇਆ ॥੧॥ اے رب! میں ایک عاجز بندہ ہوں، میرے اندر کوئی طاقت نہیں، پھر میں کیا کر سکتا ہوں؟ 1۔
ਕਾਮੁ ਕਿਵਾਰੀ ਦੁਖੁ ਸੁਖੁ ਦਰਵਾਨੀ ਪਾਪੁ ਪੁੰਨੁ ਦਰਵਾਜਾ ॥ یہاں کام (شہوت) کی ایک کھڑکی ہے، دکھ اور سکھ دربان ہیں اور گناہ و ثواب کے دروازے ہیں۔
ਕ੍ਰੋਧੁ ਪ੍ਰਧਾਨੁ ਮਹਾ ਬਡ ਦੁੰਦਰ ਤਹ ਮਨੁ ਮਾਵਾਸੀ ਰਾਜਾ ॥੨॥ غصہ اس جگہ کا سب سے بڑا حکمران ہے،اور یہیں پر دل خود کو راجہ سمجھ کر بیٹھا ہے۔ 2۔
ਸ੍ਵਾਦ ਸਨਾਹ ਟੋਪੁ ਮਮਤਾ ਕੋ ਕੁਬੁਧਿ ਕਮਾਨ ਚਢਾਈ ॥ ذائقے اور لذتیں اس قلعے کی مضبوطی کا سبب بنی ہوئی ہیں، جبکہ بری عقل نے اس کی کمان سنبھالی ہوئی ہے۔
ਤਿਸਨਾ ਤੀਰ ਰਹੇ ਘਟ ਭੀਤਰਿ ਇਉ ਗਢੁ ਲੀਓ ਨ ਜਾਈ ॥੩॥ لالچ اور خواہشات نے اس کے اندر تیر جمع کر رکھے ہیں، یہ قلعہ اس طرح محفوظ ہے کہ اسے فتح کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
ਪ੍ਰੇਮ ਪਲੀਤਾ ਸੁਰਤਿ ਹਵਾਈ ਗੋਲਾ ਗਿਆਨੁ ਚਲਾਇਆ ॥ لیکن اگر عشق (محبت) کی چنگاری، شعور (سمجھ) کی ہوا، اور علم کے بم سے حملہ کیا جائے،
ਬ੍ਰਹਮ ਅਗਨਿ ਸਹਜੇ ਪਰਜਾਲੀ ਏਕਹਿ ਚੋਟ ਸਿਝਾਇਆ ॥੪॥ اور برہماگنی (معرفت کی آگ) کو قدرتی طور پر بھڑکایا جائے، تو یہ قلعہ ایک ہی ضرب میں فتح ہوسکتا ہے۔ 4۔
ਸਤੁ ਸੰਤੋਖੁ ਲੈ ਲਰਨੇ ਲਾਗਾ ਤੋਰੇ ਦੁਇ ਦਰਵਾਜਾ ॥ اگر سچائی اور قناعت کو ہتھیار بنایا جائے، تو اس قلعے کے دونوں دروازے توڑے جاسکتے ہیں۔
ਸਾਧਸੰਗਤਿ ਅਰੁ ਗੁਰ ਕੀ ਕ੍ਰਿਪਾ ਤੇ ਪਕਰਿਓ ਗਢ ਕੋ ਰਾਜਾ ॥੫॥ اگر نیک صحبت اور گرو کا فضل حاصل ہو، تو اس قلعے کے حکمران (نفس) کو بھی قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ 5۔


© 2025 SGGS ONLINE
error: Content is protected !!
Scroll to Top