Page 852
ਗੁਰਮੁਖਿ ਵੇਖਣੁ ਬੋਲਣਾ ਨਾਮੁ ਜਪਤ ਸੁਖੁ ਪਾਇਆ ॥
گرومکھ سچائی ہی دیکھتا اور بولتا ہے اور نام کا ذکر کرکے خوشی حاصل کرتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਗੁਰਮੁਖਿ ਗਿਆਨੁ ਪ੍ਰਗਾਸਿਆ ਤਿਮਰ ਅਗਿਆਨੁ ਅੰਧੇਰੁ ਚੁਕਾਇਆ ॥੨॥
اے نانک! گرومکھ کے دل میں علم کا نور ہوگیا ہے اور جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکی دور ہوگئی ہے۔ 2۔
ਮਃ ੩ ॥
محلہ 3۔
ਮਨਮੁਖ ਮੈਲੇ ਮਰਹਿ ਗਵਾਰ ॥
نفس پرست انسان من کے گندے ہوتے ہیں اور ایسے احمق مرتے ہی رہتے ہیں۔
ਗੁਰਮੁਖਿ ਨਿਰਮਲ ਹਰਿ ਰਾਖਿਆ ਉਰ ਧਾਰਿ ॥
لیکن گرومکھ پاک ہے اور انہوں نے اپنے دل میں رب کو بسایا ہوا ہے۔
ਭਨਤਿ ਨਾਨਕੁ ਸੁਣਹੁ ਜਨ ਭਾਈ ॥
نانک عرض کرتا ہے کہ اے میرے بھائی، پرستاروں! ذرا بغور سماعت کرو،
ਸਤਿਗੁਰੁ ਸੇਵਿਹੁ ਹਉਮੈ ਮਲੁ ਜਾਈ ॥
صادق گرو کی خدمت کرو، اس سے کبر کی گندگی دور ہوجاتی ہے۔
ਅੰਦਰਿ ਸੰਸਾ ਦੂਖੁ ਵਿਆਪੇ ਸਿਰਿ ਧੰਧਾ ਨਿਤ ਮਾਰ ॥
نفس پرست کا دل شکوک میں مبتلا رہتا ہے؛ اس لیے اسے غم ہی متاثر کرتا رہتا ہے اور وہ دنیوی کاموں میں پریشان رہتا ہے۔
ਦੂਜੈ ਭਾਇ ਸੂਤੇ ਕਬਹੁ ਨ ਜਾਗਹਿ ਮਾਇਆ ਮੋਹ ਪਿਆਰ ॥
جو شخص دوہرے پن میں سویا رہتا ہے، وہ کبھی بیدار نہیں ہوتا؛ بلکہ دولت کے ہوس سے ہی ان کی وابستگی رہتی ہے۔
ਨਾਮੁ ਨ ਚੇਤਹਿ ਸਬਦੁ ਨ ਵੀਚਾਰਹਿ ਇਹੁ ਮਨਮੁਖ ਕਾ ਬੀਚਾਰ ॥
نفس پرست کے خیالات یعنی سوچنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہ نہ تو رب کا نام یاد کرتا ہے اور نہ ہی کلام پر غور و خوض کرتا ہے۔
ਹਰਿ ਨਾਮੁ ਨ ਭਾਇਆ ਬਿਰਥਾ ਜਨਮੁ ਗਵਾਇਆ ਨਾਨਕ ਜਮੁ ਮਾਰਿ ਕਰੇ ਖੁਆਰ ॥੩॥
اسے کبھی ہری کا نام پسند نہیں آیا اور اس نے اپنی پیدائش فضول ہی گنوالی ہے۔ اے نانک! ملک الموت ایسے شخص کو سخت ترین سزا دیتا ہے۔ 3
ਪਉੜੀ ॥
پؤڑی۔
ਜਿਸ ਨੋ ਹਰਿ ਭਗਤਿ ਸਚੁ ਬਖਸੀਅਨੁ ਸੋ ਸਚਾ ਸਾਹੁ ॥
وہی سچا بادشاہ ہے، جسے رب نے عقیدت اور سچائی کا عطیہ دیا ہے۔
ਤਿਸ ਕੀ ਮੁਹਤਾਜੀ ਲੋਕੁ ਕਢਦਾ ਹੋਰਤੁ ਹਟਿ ਨ ਵਥੁ ਨ ਵੇਸਾਹੁ ॥
پوری کائنات اسی کی محتاج ہے اور کسی دوسری دکان پر نام نما شئی نہیں ملتی، نہ ہی اس کی تجارت ہوتی ہے۔
ਭਗਤ ਜਨਾ ਕਉ ਸਨਮੁਖੁ ਹੋਵੈ ਸੁ ਹਰਿ ਰਾਸਿ ਲਏ ਵੇਮੁਖ ਭਸੁ ਪਾਹੁ ॥
جو لوگ معتقدین کے سامنے رہتے ہیں، اسے ہری نام کا پھل مل جاتا ہے؛ لیکن جو لوگ مخالفین کو راکھ ہی حاصل ہوتا ہے۔
ਹਰਿ ਕੇ ਨਾਮ ਕੇ ਵਾਪਾਰੀ ਹਰਿ ਭਗਤ ਹਹਿ ਜਮੁ ਜਾਗਾਤੀ ਤਿਨਾ ਨੇੜਿ ਨ ਜਾਹੁ ॥
ہری کے پرستا ہری نام کے تاجر ہیں اور یم نما محصولیا ان کے قریب نہیں آتا۔
ਜਨ ਨਾਨਕਿ ਹਰਿ ਨਾਮ ਧਨੁ ਲਦਿਆ ਸਦਾ ਵੇਪਰਵਾਹੁ ॥੭॥
غلام نانک نے بھی ہری نام نما دولت جمع کرلیا ہے؛ اس لیے وہ ہمیشہ بے پرواہ ہے۔ 7۔
ਸਲੋਕ ਮਃ ੩ ॥
شلوک محلہ 3۔
ਇਸੁ ਜੁਗ ਮਹਿ ਭਗਤੀ ਹਰਿ ਧਨੁ ਖਟਿਆ ਹੋਰੁ ਸਭੁ ਜਗਤੁ ਭਰਮਿ ਭੁਲਾਇਆ ॥
اس دور میں پرستاروں نے ہی ہری دولت کا فائدہ حاصل کیا ہے اور بقیہ پوری کائنات شبہات میں سرگرداں ہیں۔
ਗੁਰ ਪਰਸਾਦੀ ਨਾਮੁ ਮਨਿ ਵਸਿਆ ਅਨਦਿਨੁ ਨਾਮੁ ਧਿਆਇਆ ॥
گرو کے کرم سے جس کے دل میں نام جم گیا ہے، اس نے دن رات نام ہی پر غور و خوض کیا ہے۔
ਬਿਖਿਆ ਮਾਹਿ ਉਦਾਸ ਹੈ ਹਉਮੈ ਸਬਦਿ ਜਲਾਇਆ ॥
وہ زہریلی مایا سے علاحدہ رہتا ہے اور اس نے کلام کے ذریعے اپنا غرور جلا دیا ہے۔
ਆਪਿ ਤਰਿਆ ਕੁਲ ਉਧਰੇ ਧੰਨੁ ਜਣੇਦੀ ਮਾਇਆ ॥
وہ خود دنیوی سمندر سے پار ہوگیا ہے اور اس کا پورا خاندان بھی نجات پاگیا ہے، اسے پیدا کرنے والی ماں قابل مبارک باد ہیں۔
ਸਦਾ ਸਹਜੁ ਸੁਖੁ ਮਨਿ ਵਸਿਆ ਸਚੇ ਸਿਉ ਲਿਵ ਲਾਇਆ ॥
اس کے دل میں ہمیشہ سرور کی کیفیت بنی رہتی ہے اور دل سچائی میں ہی مگن رہتا ہے۔
ਬ੍ਰਹਮਾ ਬਿਸਨੁ ਮਹਾਦੇਉ ਤ੍ਰੈ ਗੁਣ ਭੁਲੇ ਹਉਮੈ ਮੋਹੁ ਵਧਾਇਆ ॥
تثلیث -برہما، وشنو، شیو شنکر اور رجوگنی انسان، تموگنی پریت اور ستوگونی معبود بھی بھولا ہوا ہے اور انہوں نے اپنے غرور اور دولت کی ہوس میں اضافہ کرلیا ہے۔
ਪੰਡਿਤ ਪੜਿ ਪੜਿ ਮੋਨੀ ਭੁਲੇ ਦੂਜੈ ਭਾਇ ਚਿਤੁ ਲਾਇਆ ॥
مذہبی صحائف پڑھ پڑھ کر پنڈت اور خاموش بابا بھی بھولے ہوئے ہیں اور انہون نے اپنا دل دوہرے پن پر مرکوز کرلیا ہے۔
ਜੋਗੀ ਜੰਗਮ ਸੰਨਿਆਸੀ ਭੁਲੇ ਵਿਣੁ ਗੁਰ ਤਤੁ ਨ ਪਾਇਆ ॥
زاہد، جوگی اور سنیاسی بھی بھٹکے ہوئے اور گرو کے بغیر کسی کو بھی اعلیٰ مقدس ہستی کا حصول نہیں ہوا۔
ਮਨਮੁਖ ਦੁਖੀਏ ਸਦਾ ਭ੍ਰਮਿ ਭੁਲੇ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹੀ ਬਿਰਥਾ ਜਨਮੁ ਗਵਾਇਆ ॥
نفس پرست انسان شبہ میں پھنس کر حیران ہے، ہمیشہ تکلیف میں رہتا ہے اور اپنی پیدائش فضول ہی گنوا دی ہے۔
ਨਾਨਕ ਨਾਮਿ ਰਤੇ ਸੇਈ ਜਨ ਸਮਧੇ ਜਿ ਆਪੇ ਬਖਸਿ ਮਿਲਾਇਆ ॥੧॥
اے نانک! نام میں مگن رہنے والا انسان ہمیشہ ثابت قدم رہتا ہے اور رب نے کرم فرماکر انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ 1۔
ਮਃ ੩ ॥
محلہ 3۔
ਨਾਨਕ ਸੋ ਸਾਲਾਹੀਐ ਜਿਸੁ ਵਸਿ ਸਭੁ ਕਿਛੁ ਹੋਇ ॥
اے نانک! اس کی حمد گانی چاہیے، جس کے اختیار میں سب کچھ ہے۔
ਤਿਸਹਿ ਸਰੇਵਹੁ ਪ੍ਰਾਣੀਹੋ ਤਿਸੁ ਬਿਨੁ ਅਵਰੁ ਨ ਕੋਇ ॥
اے لوگو! واہے گرو کو یاد کرو، اس کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں ہے۔
ਗੁਰਮੁਖਿ ਅੰਤਰਿ ਮਨਿ ਵਸੈ ਸਦਾ ਸਦਾ ਸੁਖੁ ਹੋਇ ॥੨॥
گرومکھ کے دل میں رب بس جاتا ہے اور وہ ہمیشہ خوش رہتا ہے۔ 2۔
ਪਉੜੀ ॥
پؤڑی۔
ਜਿਨੀ ਗੁਰਮੁਖਿ ਹਰਿ ਨਾਮ ਧਨੁ ਨ ਖਟਿਓ ਸੇ ਦੇਵਾਲੀਏ ਜੁਗ ਮਾਹਿ ॥
جنہوں نے گرو سے ہری نام کی دولت حاصل نہیں کی، وہ اس کائنات میں بدحال بنا رہتا ہے۔
ਓਇ ਮੰਗਦੇ ਫਿਰਹਿ ਸਭ ਜਗਤ ਮਹਿ ਕੋਈ ਮੁਹਿ ਥੁਕ ਨ ਤਿਨ ਕਉ ਪਾਹਿ ॥
وہ پوری کائنات میں مانگتے پھرتے ہیں؛ لیکن کوئی ان کے منہ پر تھوکتا بھی نہیں۔
ਪਰਾਈ ਬਖੀਲੀ ਕਰਹਿ ਆਪਣੀ ਪਰਤੀਤਿ ਖੋਵਨਿ ਸਗਵਾ ਭੀ ਆਪੁ ਲਖਾਹਿ ॥
وہ دوسروں کی مذمت کرتے رہتے ہیں؛ لیکن خود کا اعتماد بھی گنوادیتے ہیں، بلکہ خود کو دوسروں کے سامنے ظاہر کردیتے ہیں۔
ਜਿਸੁ ਧਨ ਕਾਰਣਿ ਚੁਗਲੀ ਕਰਹਿ ਸੋ ਧਨੁ ਚੁਗਲੀ ਹਥਿ ਨ ਆਵੈ ਓਇ ਭਾਵੈ ਤਿਥੈ ਜਾਹਿ ॥
وہ جس دولت کے لیے چغل خوری کرتے ہیں، مگر وہ دولت چغلی کے ذریعے ان کے ہاتھ نہیں آتی، خواہ وہ کہیں بھی جاکر جد و جہد کرلے۔