Page 21
ਅੰਤਰ ਕੀ ਗਤਿ ਜਾਣੀਐ ਗੁਰ ਮਿਲੀਐ ਸੰਕ ਉਤਾਰਿ ॥ ਮੁਇਆ ਜਿਤੁ ਘਰਿ ਜਾਈਐ ਤਿਤੁ ਜੀਵਦਿਆ ਮਰੁ ਮਾਰਿ ॥ ਅਨਹਦ ਸਬਦਿ ਸੁਹਾਵਣੇ ਪਾਈਐ ਗੁਰ ਵੀਚਾਰਿ ॥੨॥
॥انّتر کیِ گتِ جانھیِئےَ گُر مِلیِئےَ سنّک اُتارِ
॥مُئِیا جِتُ گھرِ جائیِئےَ تِتُ جیِۄدِیا مرُ مارِ
॥੨॥انہد سبدِ سُہاۄنھے پائیِئےَ گُر ۄیِچارِ
لفِظی معنے:انتر گُرُ مُکہہ ۔ مُرید مُرشِد کے اندر نِرجاس ۔ تشویح تِحقِیق کرتا ہے ۔ تزنا ۔چیڑے۔ اے جاندار۔ اے میری زِندَگی جان۔ ستنگ۔ شبہ ۔شَک ۔موئیاں جِت گھر جایئے ۔ بور وفات ۔ جہاں جانا ہے ۔تت ۔اُسے ۔جیود یا مر مار ۔ دوران حَیات۔ ختم کر دے
ترجُمہ:دلی راز و حالات سَمَجھ اور مرُشِد سے مِل کر تمام شک و شُبہات دُور کر ۔جہاں بعد وَفات پہنِچنا ہے دوران حَیات ہی اُس موت کا خوف مِٹا دے ۔مگر یہ حالت تب ہوتی ہے جب سَبَق مُرشِد پر علمدر آمد ہو جائے۔(2)
ਅਨਹਦ ਬਾਣੀ ਪਾਈਐ ਤਹ ਹਉਮੈ ਹੋਇ ਬਿਨਾਸੁ ॥ ਸਤਗੁਰੁ ਸੇਵੇ ਆਪਣਾ ਹਉ ਸਦ ਕੁਰਬਾਣੈ ਤਾਸੁ ॥ ਖੜਿ ਦਰਗਹ ਪੈਨਾਈਐ ਮੁਖਿ ਹਰਿ ਨਾਮ ਨਿਵਾਸੁ ॥੩॥
॥انہد بانھیِ پائیِئےَ تہ ہئُمےَ ہوءِ بِناسُ
॥ستگُرُ سیۄے آپنھا ہءُ سد کُربانھےَ تاسُ
॥੩॥کھڑِ درگہ پیَنائیِئےَ مُکھِ ہرِ نام نِۄاسُ
لفِظی معنے:۔اَنَحَد ۔ بلا بجائے بجنے والا۔ لَگاتار۔ شبد۔ کلام ۔اَنَحد بانی ۔ بغیر رُکے کلام ۔گھڑ درگہہ ۔ پہنتایئے ۔ لیجا کے خلعت عِنایت کیجئے ۔ ۔مکہہ ہر نام نِواس ۔ منہہ میں الہٰی نام۔ سو۔ روح۔ شَکِتی ۔ مادہ ۔تریہہ۔ گُنِ تین اوصاف پر مُشِتَمِل ۔وجُوگی۔ جُدائی پائے
ترجُمہ:جب ہر وقت صِفَت صلاح کرنیکی حالَت ہو جائے تو اُس حالت میں خودی ختم ہو جاتی ہے ۔میں قُربان ہُوں اُس پر جو خِدِمت مُرشِد کرتا ہے۔ جِسکی زُبان پر الہٰی سچ ۔ حق و حقیقت نامِ ہے اُسے بارگاہ الہٰی میں خِلعتیں مِلتی ہیں ۔ (3)
ਜਹ ਦੇਖਾ ਤਹ ਰਵਿ ਰਹੇ ਸਿਵ ਸਕਤੀ ਕਾ ਮੇਲੁ ॥ ਤ੍ਰਿਹੁ ਗੁਣ ਬੰਧੀ ਦੇਹੁਰੀ ਜੋ ਆਇਆ ਜਗਿ ਸੋ ਖੇਲੁ ॥ ਵਿਜੋਗੀ ਦੁਖਿ ਵਿਛੁੜੇ ਮਨਮੁਖਿ ਲਹਹਿ ਨ ਮੇਲੁ ॥੪॥
॥جہ دیکھا تہ رۄِ رہے سِۄ سکتیِ کا میلُ
॥ت٘رِہُ گُنھ بنّدھیِ دیہُریِ جو آئِیا جگِ سو کھیلُ
॥੪॥ۄِجوگیِ دُکھِ ۄِچھُڑے منمُکھِ لہہِ ن میلُ
ترجُمہ:میں جدھر نگاہ دوڑاتا ہوں اُدر ہی اِنسان مایا میں مَست و محو ہے دُنیاوی دولت اور جانداروں کا آپس میں ہیں میلاپ ہے مادہ پِرست پرست و خودی پرستوں کا مادیات کے تین اوصاف ۔ رُجو۔ ستو۔ تمو میں گِرفِتار ہیں۔ جو بھی خودی پسند اِس دُنیا میں آئیا وہ یہی کھیل کھیلتا ہے ۔جُدائی کا عَذاب پاتا خودی پَسَند ۔ کا خُدا سے میلاپ ہُو ہی نہیں سَکِتا ۔ (4)
ਮਨੁ ਬੈਰਾਗੀ ਘਰਿ ਵਸੈ ਸਚ ਭੈ ਰਾਤਾ ਹੋਇ ॥ ਗਿਆਨ ਮਹਾਰਸੁ ਭੋਗਵੈ ਬਾਹੁੜਿ ਭੂਖ ਨ ਹੋਇ ॥ ਨਾਨਕ ਇਹੁ ਮਨੁ ਮਾਰਿ ਮਿਲੁ ਭੀ ਫਿਰਿ ਦੁਖੁ ਨ ਹੋਇ ॥੫॥੧੮॥
॥منُ بیَراگیِ گھرِ ۄسےَ سچ بھےَ راتا ہوءِ
॥گِیان مہارسُ بھوگۄےَ باہُڑِ بھوُکھ ن ہوءِ
॥੫॥੧੮॥نانک اِہُ منُ مارِ مِلُ بھیِ پھِرِ دُکھُ ن ہوءِلفِظی معنے:
۔ہُوئے ۔ منمُکہِہ۔ خودی پَسَند۔ خُوائش کار۔ کہے نہ میل ۔ میلاپ نہیں پاتے ۔ویراگی ۔ تارک الدُنیا ۔سچ بھے ۔ سچے کے پاک خوف ۔راتا۔ محو۔ بھوگوئے ۔ زیر اِسِتعمال لاتا ہے۔ بھوکہہ۔ لالچ
ترجُمہ:تارِکِ ذِہن نشین رہِتا ہے اے تارک الدُنیا خُدا ذہن نہیں بستا ہے ۔یعنی تارک طارق خُدا کا خوف رکھتا ہے دِلمیں وہ علِم مرُشِد کے بھاری لُطُف کا مزہ لیتا ہے ۔اور خُدا سے شراکت کا بھاری لُطُف لیتا ہےاور اُسے دُنیاوی دولت کی بہوک نہیں رِہتی۔ اے نانِک تُو بھی اُس دِل سے دولت کو بُھلا کر خُدا سے اشتراک حاصِل کرتا کہ پِھر کبھی جُدائی کا عَذاب نہ ہو ۔
॥੫॥੧੮॥ ਸਿਰੀਰਾਗੁ ਮਹਲਾ ੧ ॥ ਏਹੁ ਮਨੋ ਮੂਰਖੁ ਲੋਭੀਆ ਲੋਭੇ ਲਗਾ ਲਧਭਾਨੁ ॥ ਸਬਦਿ ਨ ਭੀਜੈ ਸਾਕਤਾ ਦੁਰਮਤਿ ਆਵਨੁ ਜਾਨੁ ॥ ਸਾਧੂ ਸਤਗੁਰੁ ਜੇ ਮਿਲੈ ਤਾ ਪਾਈਐ ਗੁਣੀ ਨਿਧਾਨੁ ॥੧॥
੧॥سِریِراگُ مہلا
॥ایہُ منو موُرکھُ لوبھیِیا لوبھے لگا لد਼بھانُ
॥سبدِ ن بھیِجےَ ساکتا دُرمتِ آۄنُ جانُ
॥੧॥سادھوُ ستگُرُ جے مِلےَ تا پائیِئےَ گُنھیِ نِدھانُ
لِفظی معنے:لوبھے ۔ لالچ میں ۔ شَبَد ۔کلام ۔ سبق ۔ نہ بھیجے ۔ یقین نہیں کرتا۔ ایمان نہیں لاتا ۔ساکَت۔ مادہ ۔پِرِست ۔دُرمَت ۔ بد عقل۔ آون جان ۔ تَناسُخ۔
ترجُمہ:غم زدہ انسان کا یہ ذہن بے وقوف ، لالچی ، ہمیشہ لالچ میں الجھا ہوا ہے۔ وہ نہ صرف گُرو کے کلام میں دلچسپی نہین لیتے ہیں ، بلکہ اُسے شیطانی حکمت کی وجہ سے پیدائش اور موت کا چکر جاری رہتا ہے۔ اگر اسے گرو ستگرو مل جاتا ہے ، تو اسے خداوند ، خوبیوں کا خزانہ مل جاتا ہے
ਮਨ ਰੇ ਹਉਮੈ ਛੋਡਿ ਗੁਮਾਨੁ ॥ ਹਰਿ ਗੁਰੁ ਸਰਵਰੁ ਸੇਵਿ ਤੂ ਪਾਵਹਿ ਦਰਗਹ ਮਾਨੁ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
॥من رے ہئُمےَ چھوڈِ گُمانُ
॥رہاءُ ॥੧॥ ہرِ گُرُ سرۄرُ سیۄِ توُ پاۄہِ درگہ مانُ
ترجُمہ:اے (میرے) دماغ! میں (عقلمند) ہوں ، میں (عقلمند) ہوں – اس انا کو چھوڑ دو ، پاک کے سمندر کے خدا کے روپ والے گرو کی خدمت کرو ، تاکہ آپ کو اس کے دربار میں عزت ملے۔
ਰਾਮ ਨਾਮੁ ਜਪਿ ਦਿਨਸੁ ਰਾਤਿ ਗੁਰਮੁਖਿ ਹਰਿ ਧਨੁ ਜਾਨੁ ॥ ਸਭਿ ਸੁਖ ਹਰਿ ਰਸ ਭੋਗਣੇ ਸੰਤ ਸਭਾ ਮਿਲਿ ਗਿਆਨੁ ॥ ਨਿਤਿ ਅਹਿਨਿਸਿ ਹਰਿ ਪ੍ਰਭੁ ਸੇਵਿਆ ਸਤਗੁਰਿ ਦੀਆ ਨਾਮੁ ॥੨॥
॥رام نامُ جپِ دِنسُ راتِ گُرمُکھِ ہرِ دھنُ جانُ
॥سبھِ سُکھ ہرِ رس بھوگنھے سنّت سبھا مِلِ گِیانُ
॥੨॥نِتِ اہِنِسِ ہرِ پ٘ربھُ سیۄِیا ستگُرِ دیِیا نامُ
لِفظی معنے:سادُھو ۔ پاکدامن۔ گَنی نِدھان خزانہ اوصاف ۔سرودر ۔ تالاب ۔ گُرمُکہہ ۔ مُرشِد کے وسیلے سے ۔گیان۔ عِلَم۔ ایہہ ۔ دِن ۔نَس رات۔ ستگُر سچا مُرشِد ۔ (2)
ترجُمہ:اے دماغ! دن رات خدا کا نام مانگو۔ گرو کی حفاظت میں ، خدا کے نام اور دولت کی قدر کو سمجھیں۔ سادھ سنگت میں شامل ہوکر اور خدا کے نام کے ساتھ وابستہ ہوکر ، تمام روحانی سعادت حاصل ہوجائیگی ۔ جس نے ، ستگُرو کے نے نام کا تحفہ بخشا ہے ، اُس نے ہمیشہ دن رات خداوند کا ذکر کیا
ਕੂਕਰ ਕੂੜੁ ਕਮਾਈਐ ਗੁਰ ਨਿੰਦਾ ਪਚੈ ਪਚਾਨੁ ॥ ਭਰਮੇ ਭੂਲਾ ਦੁਖੁ ਘਣੋ ਜਮੁ ਮਾਰਿ ਕਰੈ ਖੁਲਹਾਨੁ ॥ ਮਨਮੁਖਿ ਸੁਖੁ ਨ ਪਾਈਐ ਗੁਰਮੁਖਿ ਸੁਖੁ ਸੁਭਾਨੁ ॥੩॥
॥کوُکر کوُڑُ کمائیِئےَ گُر نِنّدا پچےَ پچانُ
॥بھرمے بھوُلا دُکھُ گھنھو جمُ مارِ کرےَ کھُلہانُ
॥੩॥منمُکھِ سُکھُ ن پائیِئےَ گُرمُکھِ سُکھُ سُبھانُ
لِفظی معنے:کُوکَر ۔ کُتا ۔پچے پحان ۔ ذِلالت ۔ خُواری ۔کِھلہان۔ بُرا حال۔ سُبھان ۔ خوشحالی ۔سوبھادُ ۔(3)
ترجُمہ:جو باطل پر عمل کرتا ہے وہ کتے کی طرح ہوتا ہے اور گرو کی غیبت کی آگ میں جلتا ہے۔ مایا کے دھوکے میں ، وہ بھٹک جاتا ہے ، بہت تکلیف اٹھاتا ہے ، جامراج نے اسے چھپا چھپا کر موت کے مار ڈالتاہے۔ خودی رکھ خود کی ماننے والے کو کبھی خوشی نہیں ملتی ، لیکن گرو کے حرم خانہ میں حیرت انگیز روحانی سعادت پائی جاتی ہے۔
ਐਥੈ ਧੰਧੁ ਪਿਟਾਈਐ ਸਚੁ ਲਿਖਤੁ ਪਰਵਾਨੁ ॥ ਹਰਿ ਸਜਣੁ ਗੁਰੁ ਸੇਵਦਾ ਗੁਰ ਕਰਣੀ ਪਰਧਾਨੁ ॥ ਨਾਨਕ ਨਾਮੁ ਨ ਵੀਸਰੈ ਕਰਮਿ ਸਚੈ ਨੀਸਾਣੁ ॥੪॥੧੯॥
॥ایَتھےَ دھنّدھُ پِٹائیِئےَ سچُ لِکھتُ پرۄانُ
॥ہرِ سجنھُ گُرُ سیۄدا گُر کرنھیِ پردھانُ
॥੪॥੧੯॥نانک نامُ ن ۄیِسرےَ کرمِ سچےَ نیِسانھُ
لِفظی معنے:دَھَند۔ جَنجال ۔گر کرنی ۔ کار مُرشِد۔ پردھان۔ بُلَند شخضیت۔ کرم ۔ بخِشِش ۔ نیسان ۔ منزِل ۔ رہداری
ترجُمہ:یہاں انسان باطل کاموں میں مگن ہے (لیکن وہاں) سچے اعمال کا مصنف قبول ہوتا ہے۔
گرو (خدا کے سچے منتر) پر غور کرنے سے ، گرو والے اس کار کو درگاہ میں سمجھا اور مانا جاتا ہے۔ اے نانک! لازوال رب کے فضل سے (جس کے ماتھے پر) نوشتہ کھلا ہوا ہے ، وہ کبھی بھی رب کا نام نہیں بھولتا۔
ਸਿਰੀਰਾਗੁ ਮਹਲਾ ੧ ॥ ਇਕੁ ਤਿਲੁ ਪਿਆਰਾ ਵੀਸਰੈ ਰੋਗੁ ਵਡਾ ਮਨ ਮਾਹਿ ॥
੧॥سِریِراگُ مہلا
॥اِکُ تِلُ پِیارا ۄیِسرےَ روگُ ۄڈا من ماہِ
لفظی معنے:اک تل ۔ذرا بھر۔ پت۔ عزت
ترجُمہ:جو لوگ ایک لمحہ کے لئے بھی محبوب رب کو بھول جاتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دماغ میں ایک بہت بڑی بیماری پیدا ہوگئی ہے۔
ਕਿਉ ਦਰਗਹ ਪਤਿ ਪਾਈਐ ਜਾ ਹਰਿ ਨ ਵਸੈ ਮਨ ਮਾਹਿ ॥ ਗੁਰਿ ਮਿਲਿਐ ਸੁਖੁ ਪਾਈਐ ਅਗਨਿ ਮਰੈ ਗੁਣ ਮਾਹਿ ॥੧॥
॥کِءُ درگہ پتِ پائیِئےَ جا ہرِ ن ۄسےَ من ماہِ
॥੧॥گُرِ مِلِئےَ سُکھُ پائیِئےَ اگنِ مرےَ گُنھ ماہِ
ترجُمہ:خدا کی عدالت میں عزت کیسے پائی جا سکتی ہے ، اگر وہ رب انسان کے ذہن میں دل نہیں رہے؟ اگر گرو سے ملاقات ہوجائے ، (پھر وہ رب کی حمد کا تحفہ دیتے ہیں ، اس کی برکت سے) روحانی خوشی مل جاتی ہے (کیونکہ) تعریف کے ساتھ منسلک خواہش کی آگ بجھی جاتی ہے۔
ਮਨ ਰੇ ਅਹਿਨਿਸਿ ਹਰਿ ਗੁਣ ਸਾਰਿ ॥ ਜਿਨ ਖਿਨੁ ਪਲੁ ਨਾਮੁ ਨ ਵੀਸਰੈ ਤੇ ਜਨ ਵਿਰਲੇ ਸੰਸਾਰਿ ॥੧॥ ਰਹਾਉ ॥
॥من رے اہِنِسِ ہرِ گُنھ سارِ
॥رہاءُ ॥੧॥ جِن کھِنُ پلُ نامُ ن ۄیِسرےَ تے جن ۄِرلے سنّسارِ
ترجُمہ:اے (میرے) دل دماغ! دن رات (ہر وقت) خدا کی صفات کو یاد رکھیں اور رختا رے دنیا میں وہ (خوش قسمت) انسان بہت کم ہوتے ہیں ، جو ایک لمحہ کے لئے بھی رب کے نام کو نہیں بھولتے ہیں۔۔
ਜੋਤੀ ਜੋਤਿ ਮਿਲਾਈਐ ਸੁਰਤੀ ਸੁਰਤਿ ਸੰਜੋਗੁ ॥ ਹਿੰਸਾ ਹਉਮੈ ਗਤੁ ਗਏ ਨਾਹੀ ਸਹਸਾ ਸੋਗੁ ॥ ਗੁਰਮੁਖਿ ਜਿਸੁ ਹਰਿ ਮਨਿ ਵਸੈ ਤਿਸੁ ਮੇਲੇ ਗੁਰੁ ਸੰਜੋਗੁ ॥੨॥
॥جوتیِ جوتِ مِلائیِئےَ سُرتیِ سُرتِ سنّجوگُ
॥ہِنّسا ہئُمےَ گتُ گۓ ناہیِ سہسا سوگُ
॥੨॥گُرمُکھِ جِسُ ہرِ منِ ۄسےَ تِسُ میلے گُرُ سنّجوگُ
ترجُمہ:اگر ہم اپنی زندگی کو خداوند کی روشنی میں ضم کردیں اور، اُس مین اپنی سُرت دیان کو اسی میں ضم کردیں پھر سختی اور انا ختم ہوجاتا ہے ، کوئی خوف اور اضطراب باقی نہیں رہتا ہے۔ گرو انسان کے ذہن میں خدا سے ملنے کا پورا پورا موقع فراہم کرتا ہے جو گرو میں پناہ لیتا ہے۔
ਕਾਇਆ ਕਾਮਣਿ ਜੇ ਕਰੀ ਭੋਗੇ ਭੋਗਣਹਾਰੁ ॥ ਤਿਸੁ ਸਿਉ ਨੇਹੁ ਨ ਕੀਜਈ ਜੋ ਦੀਸੈ ਚਲਣਹਾਰੁ ॥ ਗੁਰਮੁਖਿ ਰਵਹਿ ਸੋਹਾਗਣੀ ਸੋ ਪ੍ਰਭੁ ਸੇਜ ਭਤਾਰੁ ॥੩॥
॥کائِیا کامنھِ جے کریِ بھوگے بھوگنھہارُ
॥تِسُ سِءُ نیہُ ن کیِجئیِ جو دیِسےَ چلنھہارُ
॥੩॥گُرمُکھِ رۄہِ سوہاگنھیِ سو پ٘ربھُ سیج بھتارُ
ترجُمہ:جس طرح ایک عورت خود کو اپنے شوہر کے حوالے کردیتی ہے ، اسی طرح اگر میں جسم کو پتنی بنا دوں ، جسم کو (یعنی حواس کو) خداوند کے پاس واپس کردوں تو خداوند شوہر کا میلاپ ہوسکتا ہے۔ کسی کو اس جسم کے ساتھ اتنا منسلک نہیں ہونا چاہئے ، یہ ظاہر ہے کہ فنا ہے جو عورتیں گرو کے ذریعہ چلتی ہیں وہ رب کا دھیان کرتی ہیں ، کہ رب ان کے دل کے سعج پر بیٹھ گیا ہے۔