Page 934
ਜਿਨਿ ਨਾਮੁ ਦੀਆ ਤਿਸੁ ਸੇਵਸਾ ਤਿਸੁ ਬਲਿਹਾਰੈ ਜਾਉ ॥
جس نے مجھے نام عطا کیا ہے، اسی کی خدمت کرتی ہوں اور اسی پر قربان جاتی ہوں۔
ਜੋ ਉਸਾਰੇ ਸੋ ਢਾਹਸੀ ਤਿਸੁ ਬਿਨੁ ਅਵਰੁ ਨ ਕੋਇ ॥
جو کائنات کو بناتا ہے، وہی اسے فنا کرنے والا ہے، اس کے علاوہ دوسرا کوئی قادر نہیں۔
ਗੁਰ ਪਰਸਾਦੀ ਤਿਸੁ ਸੰਮ੍ਹ੍ਲਾ ਤਾ ਤਨਿ ਦੂਖੁ ਨ ਹੋਇ ॥੩੧॥
گرو کے کرم سے اس کا دھیان کیا جائے، تو جسم کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ 31۔
ਣਾ ਕੋ ਮੇਰਾ ਕਿਸੁ ਗਹੀ ਣਾ ਕੋ ਹੋਆ ਨ ਹੋਗੁ ॥
میں کس کا سہارا لوں؟ میرا کوئی بھی اپنا نہیں ہے، رب کے علاوہ نہ کوئی ساتھی تھا اور نہ کبھی کوئی ہوگا۔
ਆਵਣਿ ਜਾਣਿ ਵਿਗੁਚੀਐ ਦੁਬਿਧਾ ਵਿਆਪੈ ਰੋਗੁ ॥
انسان پیدائش و موت کے چکر میں فنا ہوتا رہتا ہے اور اسے شبہات کی بیماری ستاتی رہتی ہے۔
ਣਾਮ ਵਿਹੂਣੇ ਆਦਮੀ ਕਲਰ ਕੰਧ ਗਿਰੰਤਿ ॥
بے نام انسان بالو کی دیوار کے مانند منہدم ہوجاتا ہے۔
ਵਿਣੁ ਨਾਵੈ ਕਿਉ ਛੂਟੀਐ ਜਾਇ ਰਸਾਤਲਿ ਅੰਤਿ ॥
وہ نام کے بغیر کیسے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے، اخیر میں پاتال میں جا گرتا ہے۔
ਗਣਤ ਗਣਾਵੈ ਅਖਰੀ ਅਗਣਤੁ ਸਾਚਾ ਸੋਇ ॥
یہ صادق رب بے حد و حساب ہے؛ لیکن انسان حروف کے ذریعے شمار کرتا رہتا ہے۔
ਅਗਿਆਨੀ ਮਤਿਹੀਣੁ ਹੈ ਗੁਰ ਬਿਨੁ ਗਿਆਨੁ ਨ ਹੋਇ ॥
بے علم انسان بے عقل ہے اور اسے گرو کے بغیر علم نہیں ہوتا۔
ਤੂਟੀ ਤੰਤੁ ਰਬਾਬ ਕੀ ਵਾਜੈ ਨਹੀ ਵਿਜੋਗਿ ॥
جیسے رباب کی ٹوٹی ہوئی تار ٹوٹنے کی وجہ سے سے نہیں بجتی۔
ਵਿਛੁੜਿਆ ਮੇਲੈ ਪ੍ਰਭੂ ਨਾਨਕ ਕਰਿ ਸੰਜੋਗ ॥੩੨॥
اے نانک! اسی طرح رب ہی اتفاقا بچھڑے ہوئے انسانوں کو ملا دیتا ہے۔ 32۔
ਤਰਵਰੁ ਕਾਇਆ ਪੰਖਿ ਮਨੁ ਤਰਵਰਿ ਪੰਖੀ ਪੰਚ ॥
یہ جسم ایک درخت ہے اور دل پرندہ ہے۔ حواس خمسہ ظاہرہ جیسا دوسرا پرندہ بھی اس پر بیٹھا ہوا ہے۔
ਤਤੁ ਚੁਗਹਿ ਮਿਲਿ ਏਕਸੇ ਤਿਨ ਕਉ ਫਾਸ ਨ ਰੰਚ ॥
جب وہ پانچوں حواس کے ساتھ مل کر روحانی علم کا پھل حاصل کرتا رہتا ہے، تو انہیں ذرہ برابر بھی مایا کا جال متاثر نہیں کرتا۔
ਉਡਹਿ ਤ ਬੇਗੁਲ ਬੇਗੁਲੇ ਤਾਕਹਿ ਚੋਗ ਘਣੀ ॥
جب وہ اس دانے کو چگنے کے لیے بے چین ہوکر آڑے تو
ਪੰਖ ਤੁਟੇ ਫਾਹੀ ਪੜੀ ਅਵਗੁਣਿ ਭੀੜ ਬਣੀ ॥
انہیں مایا کا پھندا پڑگیا اور ان کا پنکھ ٹوٹ گیا، یہ آفت ان کی اپنی برائیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
ਬਿਨੁ ਸਾਚੇ ਕਿਉ ਛੂਟੀਐ ਹਰਿ ਗੁਣ ਕਰਮਿ ਮਣੀ ॥
انسان سچائی کے بغیر کیسے چھوٹ سکتا ہے اور اسے خوبیوں کا جوہر اس کے فضل سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
ਆਪਿ ਛਡਾਏ ਛੂਟੀਐ ਵਡਾ ਆਪਿ ਧਣੀ ॥
وہ مالک رب خود عظیم ہے، اگر وہ خود بندھنوں سے نجات دلائے، تب ہی آزادی مل سکتی ہے۔
ਗੁਰ ਪਰਸਾਦੀ ਛੂਟੀਐ ਕਿਰਪਾ ਆਪਿ ਕਰੇਇ ॥
جب وہ خود کرم کرتا ہے، تو انسان گرو کے فضل سے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔
ਅਪਣੈ ਹਾਥਿ ਵਡਾਈਆ ਜੈ ਭਾਵੈ ਤੈ ਦੇਇ ॥੩੩॥
تمام کبریائی رب کے قبضہ قدرت میں ہے، اگر اسے منظور ہو، تب ہی عطا کرتا ہے۔ 33۔
ਥਰ ਥਰ ਕੰਪੈ ਜੀਅੜਾ ਥਾਨ ਵਿਹੂਣਾ ਹੋਇ ॥
روح رب کی پناہ کی جگہ سے محروم ہو کر بہت کانپتی ہے۔
ਥਾਨਿ ਮਾਨਿ ਸਚੁ ਏਕੁ ਹੈ ਕਾਜੁ ਨ ਫੀਟੈ ਕੋਇ ॥
ایک صادق رب ہی اسے پناہ اورعزت عطا کرتا ہے، پھر اس کا کوئی کام نہیں بگڑتا۔
ਥਿਰੁ ਨਾਰਾਇਣੁ ਥਿਰੁ ਗੁਰੂ ਥਿਰੁ ਸਾਚਾ ਬੀਚਾਰੁ ॥
وہ ناراین مستحکم ہے، گرو مستحکم ہے اور ان کے عمدہ خیال ہمیشہ مستحکم ہے۔
ਸੁਰਿ ਨਰ ਨਾਥਹ ਨਾਥੁ ਤੂ ਨਿਧਾਰਾ ਆਧਾਰੁ ॥
اے رب! تو دیوتاؤں، مردوں اور آقاؤں کا بھی آقا ہے، تو ہی بے سہاروں کا سہارا ہے۔
ਸਰਬੇ ਥਾਨ ਥਨੰਤਰੀ ਤੂ ਦਾਤਾ ਦਾਤਾਰੁ ॥
کائنات کے تمام مقامات پر تیرا ہی بسیرا ہے اور تو ہی سب کو عطا کرنے والا ہے۔
ਜਹ ਦੇਖਾ ਤਹ ਏਕੁ ਤੂ ਅੰਤੁ ਨ ਪਾਰਾਵਾਰੁ ॥
جہاں بھی دیکھتا ہوں، وہاں صرف تو ہی ہے اور تیری کوئی انتہا اور آخری حد نہیں۔
ਥਾਨ ਥਨੰਤਰਿ ਰਵਿ ਰਹਿਆ ਗੁਰ ਸਬਦੀ ਵੀਚਾਰਿ ॥
واہے گرو ہمہ گیر ہے، پر اس حقیقت کا علم گرو کے کلام سے ہی ہوتا ہے۔
ਅਣਮੰਗਿਆ ਦਾਨੁ ਦੇਵਸੀ ਵਡਾ ਅਗਮ ਅਪਾਰੁ ॥੩੪॥
وہ نا قابل رسائی رب اتنا عظیم ہے کہ بغیر مانگے ہی انسانوں کو عطیہ دیتا رہتا ہے۔ 34۔
ਦਇਆ ਦਾਨੁ ਦਇਆਲੁ ਤੂ ਕਰਿ ਕਰਿ ਦੇਖਣਹਾਰੁ ॥
اے اعلی مالک! تو مخزن فضل ہے، تو تمام انسانوں کو کرم کا تحفہ عطا کرتا ہے اور خود ہی تخلیق کرکے اس کی نگہبانی بھی کرتا ہے۔
ਦਇਆ ਕਰਹਿ ਪ੍ਰਭ ਮੇਲਿ ਲੈਹਿ ਖਿਨ ਮਹਿ ਢਾਹਿ ਉਸਾਰਿ ॥
اے رب! تو جس پر کرم کرتا ہے، اسے ساتھ ملالیتا ہے، تو اپنی مرضی سے ایک لمحہ میں ہی بناکر فنا کردیتا ہے۔
ਦਾਨਾ ਤੂ ਬੀਨਾ ਤੁਹੀ ਦਾਨਾ ਕੈ ਸਿਰਿ ਦਾਨੁ ॥
تو ہی چالاک اور صاحب علم ہے، تو سخیوں میں سب سے بڑا سخی ہے۔
ਦਾਲਦ ਭੰਜਨ ਦੁਖ ਦਲਣ ਗੁਰਮੁਖਿ ਗਿਆਨੁ ਧਿਆਨੁ ॥੩੫॥
تو غریبی مٹانے والا اور تکالیف کا خاتمہ کرنے والا ہے، انسان کو گرو کے ذریعے سے ہی علم و مراقبہ حاصل ہوتا ہے ۔35
ਧਨਿ ਗਇਐ ਬਹਿ ਝੂਰੀਐ ਧਨ ਮਹਿ ਚੀਤੁ ਗਵਾਰ ॥
احمق انسان کا دماغ ہر وقت دولت میں ہی لگا رہتا ہے اور وہ دولت کے چلے جانے سے بہت دکھی ہوتا ہے۔
ਧਨੁ ਵਿਰਲੀ ਸਚੁ ਸੰਚਿਆ ਨਿਰਮਲੁ ਨਾਮੁ ਪਿਆਰਿ ॥
کسی نایاب نے ہی نام کی سچی دولت جمع کی ہے اور رب کے پاکیزہ نام سے ہی دل لگایا ہوا ہے۔
ਧਨੁ ਗਇਆ ਤਾ ਜਾਣ ਦੇਹਿ ਜੇ ਰਾਚਹਿ ਰੰਗਿ ਏਕ ॥
اگر دل رب کے رنگ میں مگن ہے، تو دولت چلے جلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ਮਨੁ ਦੀਜੈ ਸਿਰੁ ਸਉਪੀਐ ਭੀ ਕਰਤੇ ਕੀ ਟੇਕ ॥
دل حوالے کرکے، اپنا سر سونپ کر بھی انسان رب ہی کا سہارا لیتا ہے۔
ਧੰਧਾ ਧਾਵਤ ਰਹਿ ਗਏ ਮਨ ਮਹਿ ਸਬਦੁ ਅਨੰਦੁ ॥
جب دل میں برہما لفظ کی خوشی پیدا ہوگئی، تو دنیا کا بندھن ٹوٹ گیا۔
ਦੁਰਜਨ ਤੇ ਸਾਜਨ ਭਏ ਭੇਟੇ ਗੁਰ ਗੋਵਿੰਦ ॥
جب گرو گوبند سے ملاقات ہوجائے، تو شریر بھی شریف بن جاتا ہے۔
ਬਨੁ ਬਨੁ ਫਿਰਤੀ ਢੂਢਤੀ ਬਸਤੁ ਰਹੀ ਘਰਿ ਬਾਰਿ ॥
جس نام نما شئی کو تلاش کرتی ہوئی جنگلوں میں بھٹک رہی تھی، وہ شئی تو دل کے گھر میں ہی حاصل ہوگئی۔
ਸਤਿਗੁਰਿ ਮੇਲੀ ਮਿਲਿ ਰਹੀ ਜਨਮ ਮਰਣ ਦੁਖੁ ਨਿਵਾਰਿ ॥੩੬॥
جب سے صادق گرو نے اعلی صادق رب سے ملاقات کروایا ہے، پیدائش و موت کی تکلیف دور ہوگئی ہے۔ 36۔
ਨਾਨਾ ਕਰਤ ਨ ਛੂਟੀਐ ਵਿਣੁ ਗੁਣ ਜਮ ਪੁਰਿ ਜਾਹਿ ॥
مختلف اقسام کی رسومات کرنے سے بندھنوں سے آزاد نہیں ملتی اور خوبیوں سے عاری شخص کو جہنم میں ہی جانا پڑتا ہے۔
ਨਾ ਤਿਸੁ ਏਹੁ ਨ ਓਹੁ ਹੈ ਅਵਗੁਣਿ ਫਿਰਿ ਪਛੁਤਾਹਿ ॥
نہ ہی اس کی دنیا اور نہ ہی آخرت سنورتی ہے،وہ اپنی برائیوں کی وجہ سے افسوس کرتا ہے۔