Page 1410
ੴ ਸਤਿ ਨਾਮੁ ਕਰਤਾ ਪੁਰਖੁ ਨਿਰਭਉ ਨਿਰਵੈਰੁ ਅਕਾਲ ਮੂਰਤਿ ਅਜੂਨੀ ਸੈਭੰ ਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ॥
وہ واحد رب جس کی پہچان "اوم" ہے، وہ صرف ایک ہے، اس کا نام صادق ہے۔ وہ سب کا پیدا کرنےوالا ہے، وہ بے خوف ہے، وہ کسی سے بیر نہیں رکھتا۔وہ وقت سے ماورا ہے، وہ کبھی فنا نہیں ہوتا، وہ موت و حیات کے بندھن سے آزاد ہے،وہ خود روشن ہوا ہے، اور صرف صادق گرو کے فضل سے حاصل ہوتا ہے۔
ਸਲੋਕ ਵਾਰਾਂ ਤੇ ਵਧੀਕ ॥
(وہ شلوک جو "آدی گرنتھ" کی بائیس واروں سے زائد ہیں اور جنہیں گرو ارجن دیو جی نے الگ عنوان کے تحت مرتب کیا)
ਮਹਲਾ ੧ ॥
محلہ 1
ਉਤੰਗੀ ਪੈਓਹਰੀ ਗਹਿਰੀ ਗੰਭੀਰੀ ॥
اے جوانی کی مستی میں ڈوبی عورت! ذرا سنجیدگی اور سمجھداری اختیار کر۔
ਸਸੁੜਿ ਸੁਹੀਆ ਕਿਵ ਕਰੀ ਨਿਵਣੁ ਨ ਜਾਇ ਥਣੀ ॥
ساس کہتی ہے: میں کیسے جھک کر آداب کروں؟میرے بلند سینے کے سبب جھکنا ممکن نہیں۔
ਗਚੁ ਜਿ ਲਗਾ ਗਿੜਵੜੀ ਸਖੀਏ ਧਉਲਹਰੀ ॥
اے سہیلی! میں نے تو اونچے اونچے محلوں کو بھی زمین بوس ہوتے دیکھا ہے۔
ਸੇ ਭੀ ਢਹਦੇ ਡਿਠੁ ਮੈ ਮੁੰਧ ਨ ਗਰਬੁ ਥਣੀ ॥੧॥
اس لیے اے عورت! اپنے جوانی کے غرور پر نہ اترانا۔ 1۔
ਸੁਣਿ ਮੁੰਧੇ ਹਰਣਾਖੀਏ ਗੂੜਾ ਵੈਣੁ ਅਪਾਰੁ ॥
اے ہرن جیسی آنکھوں والی عورت! ایک گہری سچائی سن۔
ਪਹਿਲਾ ਵਸਤੁ ਸਿਞਾਣਿ ਕੈ ਤਾਂ ਕੀਚੈ ਵਾਪਾਰੁ ॥
پہلے چیز کو اچھی طرح پہچان لو، تب ہی اس کا لین دین کرو۔
ਦੋਹੀ ਦਿਚੈ ਦੁਰਜਨਾ ਮਿਤ੍ਰਾਂ ਕੂੰ ਜੈਕਾਰੁ ॥
برے لوگوں سے دور رہو، اور اچھے لوگوں کی عزت و تعظیم کرو۔
ਜਿਤੁ ਦੋਹੀ ਸਜਣ ਮਿਲਨਿ ਲਹੁ ਮੁੰਧੇ ਵੀਚਾਰੁ ॥
وہی بات سوچو جس سے نیک لوگوں سے ملاقات ممکن ہو۔
ਤਨੁ ਮਨੁ ਦੀਜੈ ਸਜਣਾ ਐਸਾ ਹਸਣੁ ਸਾਰੁ ॥
اپنا تن من نیکوں کو دے دو، یہی اصل خوشی ہے۔
ਤਿਸ ਸਉ ਨੇਹੁ ਨ ਕੀਚਈ ਜਿ ਦਿਸੈ ਚਲਣਹਾਰੁ ॥
اس سے ہرگز محبت نہ کرو جس کا ساتھ چھوٹ جانے والا ہو۔
ਨਾਨਕ ਜਿਨ੍ਹ੍ਹੀ ਇਵ ਕਰਿ ਬੁਝਿਆ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹਾ ਵਿਟਹੁ ਕੁਰਬਾਣੁ ॥੨॥
نانک فرماتے ہیں: جو اس سچ کو سمجھ گئے، میں اُن پر قربان جاتا ہوں۔ 2
ਜੇ ਤੂੰ ਤਾਰੂ ਪਾਣਿ ਤਾਹੂ ਪੁਛੁ ਤਿੜੰਨ੍ਹ੍ਹ ਕਲ ॥
اگر تُو پانی میں تیرنا چاہتا ہے،تو اُن سے سیکھ جو پہلے سے اس فن میں ماہر ہیں۔
ਤਾਹੂ ਖਰੇ ਸੁਜਾਣ ਵੰਞਾ ਏਨ੍ਹ੍ਹੀ ਕਪਰੀ ॥੩॥
وہی لوگ عقلمند ہیں، جنہوں نے لہروں کا تجربہ حاصل کیا ہے۔ 3
ਝੜ ਝਖੜ ਓਹਾੜ ਲਹਰੀ ਵਹਨਿ ਲਖੇਸਰੀ ॥
چاہے آندھیاں ہوں، جھکڑ ہوں، یا لاکھوں لہریں چل رہی ہوں ۔
ਸਤਿਗੁਰ ਸਿਉ ਆਲਾਇ ਬੇੜੇ ਡੁਬਣਿ ਨਾਹਿ ਭਉ ॥੪॥
ایسی حالت میں صادق گرو کو یاد کرو، پھر کشتی ڈوبنے کا خوف نہیں رہے گا۔ 4
ਨਾਨਕ ਦੁਨੀਆ ਕੈਸੀ ਹੋਈ ॥
نانک فرماتے ہیں: دنیا کتنی عجیب ہو گئی ہے۔
ਸਾਲਕੁ ਮਿਤੁ ਨ ਰਹਿਓ ਕੋਈ ॥
یہاں اب کوئی سچا دوست باقی نہیں رہا۔
ਭਾਈ ਬੰਧੀ ਹੇਤੁ ਚੁਕਾਇਆ ॥
بھائیوں اور رشتہ داروں کا پیار ختم ہو چکا ہے۔
ਦੁਨੀਆ ਕਾਰਣਿ ਦੀਨੁ ਗਵਾਇਆ ॥੫॥
دنیا کی خاطر انسان اپنا دین گنوا بیٹھا ہے۔ 5
ਹੈ ਹੈ ਕਰਿ ਕੈ ਓਹਿ ਕਰੇਨਿ ॥
لوگ کسی کے مرنے پر چیختے چلاتے ہیں،
ਗਲ੍ਹ੍ਹਾ ਪਿਟਨਿ ਸਿਰੁ ਖੋਹੇਨਿ ॥
گالوں پر تھپڑ مارتے ہیں، اور سر کے بال نوچتے ہیں۔
ਨਾਉ ਲੈਨਿ ਅਰੁ ਕਰਨਿ ਸਮਾਇ ॥
لیکن جو رب کا نام لیتے ہیں اور اُس کی رضا میں خوش رہتے ہیں۔
ਨਾਨਕ ਤਿਨ ਬਲਿਹਾਰੈ ਜਾਇ ॥੬॥
نانک کہتے ہیں: میں اُن پر قربان جاتا ہوں۔ 6
ਰੇ ਮਨ ਡੀਗਿ ਨ ਡੋਲੀਐ ਸੀਧੈ ਮਾਰਗਿ ਧਾਉ ॥
اے دل! گھبرا مت، ڈگمگا مت،۔سیدھے راستے پر قدم رکھ ۔
ਪਾਛੈ ਬਾਘੁ ਡਰਾਵਣੋ ਆਗੈ ਅਗਨਿ ਤਲਾਉ ॥
پیچھے پلٹنے کی کوشش کی تو باگھ کا خوف لگتا ہے اور آگے آگ کا تالاب ہے۔
ਸਹਸੈ ਜੀਅਰਾ ਪਰਿ ਰਹਿਓ ਮਾ ਕਉ ਅਵਰੁ ਨ ਢੰਗੁ ॥
میرا دل شک میں ڈوبا ہوا ہے، مجھے کوئی اور راستہ سوجھتا نہیں۔
ਨਾਨਕ ਗੁਰਮੁਖਿ ਛੁਟੀਐ ਹਰਿ ਪ੍ਰੀਤਮ ਸਿਉ ਸੰਗੁ ॥੭॥
نانک فرماتے ہیں:۔گرو کے کلام سے بندھن ٹوٹتا ہے اور رب سے سچا پیار جُڑتا ہے۔ 7۔
ਬਾਘੁ ਮਰੈ ਮਨੁ ਮਾਰੀਐ ਜਿਸੁ ਸਤਿਗੁਰ ਦੀਖਿਆ ਹੋਇ ॥
جب انسان صادق گرو کی تعلیم پاتا ہے، تو وہ اپنے دل کو قابو میں لے آتا ہے، تب ہی شیر (دنیا کا خوف) خود ہی مر جاتا ہے۔
ਆਪੁ ਪਛਾਣੈ ਹਰਿ ਮਿਲੈ ਬਹੁੜਿ ਨ ਮਰਣਾ ਹੋਇ ॥
جو اپنی حقیقت کو پہچان لیتا ہے، وہ رب سے جا ملتا ہے اور پھر دوبارہ موت و حیات کے چکر میں نہیں آتا۔