Page 1384
ਮਿਸਲ ਫਕੀਰਾਂ ਗਾਖੜੀ ਸੁ ਪਾਈਐ ਪੂਰ ਕਰੰਮਿ ॥੧੧੧॥
فقیروں کا طرزِ زندگی بڑا سخت ہوتا ہے، یہ صرف رب کے کامل فضل سے ہی نصیب ہوتا ہے۔ 111۔
ਪਹਿਲੈ ਪਹਰੈ ਫੁਲੜਾ ਫਲੁ ਭੀ ਪਛਾ ਰਾਤਿ ॥
رات کے پہلے پہر کی عبادت پھول کی مانند ہوتی ہے اور آخری پہر کی عبادت پھل کی طرح میٹھی ہوتی ہے۔
ਜੋ ਜਾਗੰਨ੍ਹ੍ਹਿ ਲਹੰਨਿ ਸੇ ਸਾਈ ਕੰਨੋ ਦਾਤਿ ॥੧੧੨॥
جو رب کے عشق میں جاگتے ہیں، وہی اُس کی نعمتوں کے سچے وارث بنتے ہیں۔ 112
ਦਾਤੀ ਸਾਹਿਬ ਸੰਦੀਆ ਕਿਆ ਚਲੈ ਤਿਸੁ ਨਾਲਿ ॥
ساری نعمتیں رب کی طرف سے آتی ہیں، اُس کے آگے کسی کی مرضی نہیں چلتی۔
ਇਕਿ ਜਾਗੰਦੇ ਨਾ ਲਹਨ੍ਹ੍ਹਿ ਇਕਨ੍ਹ੍ਹਾ ਸੁਤਿਆ ਦੇਇ ਉਠਾਲਿ ॥੧੧੩॥
کچھ جاگ کر بھی خالی رہ جاتے ہیں اور کچھ سوتے ہوئے بھی رب اُنہیں جگا کر نواز دیتا ہے۔ 113۔
ਢੂਢੇਦੀਏ ਸੁਹਾਗ ਕੂ ਤਉ ਤਨਿ ਕਾਈ ਕੋਰ ॥
اے خاتون! اگر تُو اپنے مالک شوہر کو نہ پا سکی، تو یقیناً تیرے اندر ہی کوئی کمی ہے۔
ਜਿਨ੍ਹ੍ਹਾ ਨਾਉ ਸੁਹਾਗਣੀ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹਾ ਝਾਕ ਨ ਹੋਰ ॥੧੧੪॥
جنہیں رب کا سچا وصال حاصل ہوتا ہے، وہ کسی اور کی طرف کبھی نہیں دیکھتے۔ 114۔
ਸਬਰ ਮੰਝ ਕਮਾਣ ਏ ਸਬਰੁ ਕਾ ਨੀਹਣੋ ॥
اگر تیرے دل میں صبر کی کمان ہو، اور زبان پر صبر کا تیر ہو اور
ਸਬਰ ਸੰਦਾ ਬਾਣੁ ਖਾਲਕੁ ਖਤਾ ਨ ਕਰੀ ॥੧੧੫॥
تو یقیناً اُس تیر کا نشانہ رب کبھی خطا نہیں ہونے دیتا۔ 115۔
ਸਬਰ ਅੰਦਰਿ ਸਾਬਰੀ ਤਨੁ ਏਵੈ ਜਾਲੇਨ੍ਹ੍ਹਿ ॥
صابر لوگ صبر ہی میں رہ کر سخت ریاضتوں سے اپنے جسم کو جلا دیتے ہیں،
ਹੋਨਿ ਨਜੀਕਿ ਖੁਦਾਇ ਦੈ ਭੇਤੁ ਨ ਕਿਸੈ ਦੇਨਿ ॥੧੧੬॥
وہ رب کے بےحد قریب ہو جاتے ہیں، مگر یہ راز کسی پر ظاہر نہیں کرتے۔ 116۔
ਸਬਰੁ ਏਹੁ ਸੁਆਉ ਜੇ ਤੂੰ ਬੰਦਾ ਦਿੜੁ ਕਰਹਿ ॥
صبر ہی زندگی کا اصل مقصد ہے، اگر تُو اسے مضبوطی سے تھام لے
ਵਧਿ ਥੀਵਹਿ ਦਰੀਆਉ ਟੁਟਿ ਨ ਥੀਵਹਿ ਵਾਹੜਾ ॥੧੧੭॥
تو نہر کی مانند بہتا رہے گا، اور چھوٹا سا نالہ بن کر نہ ٹوٹے گا۔ 117۔
ਫਰੀਦਾ ਦਰਵੇਸੀ ਗਾਖੜੀ ਚੋਪੜੀ ਪਰੀਤਿ ॥
فرید کہتے ہیں: فقیری کا راستہ بہت کٹھن ہے، لیکن تیرا عشق تو بس ظاہری دکھاوا ہے۔
ਇਕਨਿ ਕਿਨੈ ਚਾਲੀਐ ਦਰਵੇਸਾਵੀ ਰੀਤਿ ॥੧੧੮॥
اس راہ پر کوئی کوئی ہی قدم رکھتا ہے، ورنہ سب راہ بھٹک جاتے ہیں۔ 118
ਤਨੁ ਤਪੈ ਤਨੂਰ ਜਿਉ ਬਾਲਣੁ ਹਡ ਬਲੰਨ੍ਹ੍ਹਿ ॥
اگر جسم تندور کی طرح تپ جائے، اور ہڈیاں لکڑیوں کی طرح جل جائیں۔
ਪੈਰੀ ਥਕਾਂ ਸਿਰਿ ਜੁਲਾਂ ਜੇ ਮੂੰ ਪਿਰੀ ਮਿਲੰਨ੍ਹ੍ਹਿ ॥੧੧੯॥
میں اپنے پیروں سے چل کر تھک بھی جاؤں، تو اپنے مالک کے وصال کے لیے سر کے بل بھی چلنے کو تیار ہوں۔اگر مجھے اپنا مالک مل جائے (تو میں ہر مشکل کو برداشت کرنے کو تیار ہوں) 116
ਤਨੁ ਨ ਤਪਾਇ ਤਨੂਰ ਜਿਉ ਬਾਲਣੁ ਹਡ ਨ ਬਾਲਿ ॥
فرید کہتے ہیں: اے انسان! جسم کو تندور نہ بنا، ہڈیوں کو نہ جلا ۔
ਸਿਰਿ ਪੈਰੀ ਕਿਆ ਫੇੜਿਆ ਅੰਦਰਿ ਪਿਰੀ ਨਿਹਾਲਿ ॥੧੨੦॥
سَر اور پاؤں نے تیرا کیا بگاڑا ہے؟ بس دل کے اندر اپنے رب کو تلاش کر۔ 120
ਹਉ ਢੂਢੇਦੀ ਸਜਣਾ ਸਜਣੁ ਮੈਡੇ ਨਾਲਿ ॥
میں اُسے ڈھونڈتی پھرتی تھی، جو دراصل میرے ہی ساتھ ہے۔
ਨਾਨਕ ਅਲਖੁ ਨ ਲਖੀਐ ਗੁਰਮੁਖਿ ਦੇਇ ਦਿਖਾਲਿ ॥੧੨੧॥
اے نانک! وہ پوشیدہ رب نظر نہیں آتا، لیکن صادق گرو ہی اُسے دکھاتا ہے۔ 121
ਹੰਸਾ ਦੇਖਿ ਤਰੰਦਿਆ ਬਗਾ ਆਇਆ ਚਾਉ ॥
جب بگلے (ریاکار) ہنسوں (صالحوں) کو تیرتا دیکھتے ہیں، تو وہ بھی تڑپتے ہیں،
ਡੁਬਿ ਮੁਏ ਬਗ ਬਪੁੜੇ ਸਿਰੁ ਤਲਿ ਉਪਰਿ ਪਾਉ ॥੧੨੨॥
مگر بے چارے بگلے ڈوب جاتے ہیں، سر نیچے، پاؤں اوپر ہو جاتے ہیں۔ 122
ਮੈ ਜਾਣਿਆ ਵਡ ਹੰਸੁ ਹੈ ਤਾਂ ਮੈ ਕੀਤਾ ਸੰਗੁ ॥
میں سمجھا یہ کوئی عظیم ہنس (ہستی) ہے، اس لیے میں اُس کے ساتھ ہوگیا۔
ਜੇ ਜਾਣਾ ਬਗੁ ਬਪੁੜਾ ਜਨਮਿ ਨ ਭੇੜੀ ਅੰਗੁ ॥੧੨੩॥
مگر کاش مجھے معلوم ہوتا کہ یہ محض ایک ڈھونگی ہے تو میں کبھی اُس کی صحبت نہ کرتا۔ 123
ਕਿਆ ਹੰਸੁ ਕਿਆ ਬਗੁਲਾ ਜਾ ਕਉ ਨਦਰਿ ਧਰੇ ॥
ہنس ہو یا بگلا جس پر رب کی نظرِ کرم ہو جائے، وہی اعلیٰ ہے۔
ਜੇ ਤਿਸੁ ਭਾਵੈ ਨਾਨਕਾ ਕਾਗਹੁ ਹੰਸੁ ਕਰੇ ॥੧੨੪॥
گرو نانک کہتے ہیں کہ اگر مالک چاہے، تو کالے کوے کو بھی ہنس بنا دے۔ 124
ਸਰਵਰ ਪੰਖੀ ਹੇਕੜੋ ਫਾਹੀਵਾਲ ਪਚਾਸ ॥
یہ دنیا ایک جھیل ہے، اور اس میں انسان ایک پرندہ ہے جبکہ اُسے قابو میں کرنے والے خواہشات کے پچاسوں جال ہیں۔
ਇਹੁ ਤਨੁ ਲਹਰੀ ਗਡੁ ਥਿਆ ਸਚੇ ਤੇਰੀ ਆਸ ॥੧੨੫॥
یہ جسم گناہوں کی لہروں میں گھر گیا ہے، اے سچے مالک! اب تو ہی سہارا ہے۔ 125
ਕਵਣੁ ਸੁ ਅਖਰੁ ਕਵਣੁ ਗੁਣੁ ਕਵਣੁ ਸੁ ਮਣੀਆ ਮੰਤੁ ॥
وہ کون سا حرف ہے، کون سا عمل ہے، کون سا منتر ہے۔
ਕਵਣੁ ਸੁ ਵੇਸੋ ਹਉ ਕਰੀ ਜਿਤੁ ਵਸਿ ਆਵੈ ਕੰਤੁ ॥੧੨੬॥
کون سا ایسا روپ ہے، جس سے شوہر مالک قابو میں آ جائے؟ 126۔
ਨਿਵਣੁ ਸੁ ਅਖਰੁ ਖਵਣੁ ਗੁਣੁ ਜਿਹਬਾ ਮਣੀਆ ਮੰਤੁ ॥
جواب: نرمی سے بات کرو، اگر کوئی بُری بولتا ہے تو معاف کرنے والے رب کی حمد بیان کرو، زبان سے میٹھی بات بولنے کی عادت ڈالو۔
ਏ ਤ੍ਰੈ ਭੈਣੇ ਵੇਸ ਕਰਿ ਤਾਂ ਵਸਿ ਆਵੀ ਕੰਤੁ ॥੧੨੭॥
اے سہیلی! یہی تین لباس ہیں، جنہیں پہن کر مالک شوہر تیرے قابو میں آ جائے گا۔ 127۔
ਮਤਿ ਹੋਦੀ ਹੋਇ ਇਆਣਾ ॥
جسے عقل حاصل ہو، پھر بھی وہ خود کو نادان سمجھے،
ਤਾਣ ਹੋਦੇ ਹੋਇ ਨਿਤਾਣਾ ॥
طاقتور ہو کر بھی کمزور بن کر رہے (معصوم پر ظلم نہ کرے)
ਅਣਹੋਦੇ ਆਪੁ ਵੰਡਾਏ ॥
جو اپنی ہر چیز بانٹ کر کھائے(غریبوں کو دیتا ہو)
ਕੋ ਐਸਾ ਭਗਤੁ ਸਦਾਏ ॥੧੨੮॥
ایسا ہی انسان سچا بھکت کہلاتا ہے۔ 128۔
ਇਕੁ ਫਿਕਾ ਨ ਗਾਲਾਇ ਸਭਨਾ ਮੈ ਸਚਾ ਧਣੀ ॥
کسی کو بھی کڑوا یا بُرا لفظ نہ کہو، کیونکہ سب میں وہی سچا رب بستا ہے۔
ਹਿਆਉ ਨ ਕੈਹੀ ਠਾਹਿ ਮਾਣਕ ਸਭ ਅਮੋਲਵੇ ॥੧੨੯॥
کسی کا دل مت توڑو، ہر دل ایک قیمتی موتی ہے۔ 126۔
ਸਭਨਾ ਮਨ ਮਾਣਿਕ ਠਾਹਣੁ ਮੂਲਿ ਮਚਾਂਗਵਾ ॥
سب کا دل قیمتی ہے، انہیں دکھ دینا ہرگز مناسب نہیں۔
ਜੇ ਤਉ ਪਿਰੀਆ ਦੀ ਸਿਕ ਹਿਆਉ ਨ ਠਾਹੇ ਕਹੀ ਦਾ ॥੧੩੦॥
اگر تُو رب کا طالب ہے، تو کسی کا دل کبھی نہ دکھانا۔ 130۔