Page 1368
ਜਬ ਦੇਖਿਓ ਬੇੜਾ ਜਰਜਰਾ ਤਬ ਉਤਰਿ ਪਰਿਓ ਹਉ ਫਰਕਿ ॥੬੭॥
جب میں نے دیکھا کہ جسمانی بیڑا پرانا اور بوسیدہ ہو چکا ہے، تو میں فوراً ہی اُتر کر الگ ہو گیا۔ 67
ਕਬੀਰ ਪਾਪੀ ਭਗਤਿ ਨ ਭਾਵਈ ਹਰਿ ਪੂਜਾ ਨ ਸੁਹਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: گناہگار انسان کو بھگتی اچھی نہیں لگتی، نہ ہی اُسے رب کی پوجا میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔
ਮਾਖੀ ਚੰਦਨੁ ਪਰਹਰੈ ਜਹ ਬਿਗੰਧ ਤਹ ਜਾਇ ॥੬੮॥
جیسے مکھی خوشبودار چَندن کو چھوڑ کر گندگی پر چلی جاتی ہے ویسے ہی گناہگار بھی رب کی پوجا چھوڑ کر بُرے اعمال میں لگ جاتے ہیں۔ 68۔
ਕਬੀਰ ਬੈਦੁ ਮੂਆ ਰੋਗੀ ਮੂਆ ਮੂਆ ਸਭੁ ਸੰਸਾਰੁ ॥
کبیر کہتے ہیں: حکیم بھی مرا، مریض بھی مرا، اور یہ دنیا بھی مر رہی ہے (یعنی صاحب علم ہو یا جاہل، دانش مند ہو یا احمق، سب ہی لگاؤ اور وہم کی وجہ سے مر رہے ہیں۔)
ਏਕੁ ਕਬੀਰਾ ਨਾ ਮੂਆ ਜਿਹ ਨਾਹੀ ਰੋਵਨਹਾਰੁ ॥੬੯॥
لیکن صرف ایک کبیر ہی ہے جو نہ مرا، کیونکہ اُسے کوئی رونے والا نہیں تھا۔ 66
ਕਬੀਰ ਰਾਮੁ ਨ ਧਿਆਇਓ ਮੋਟੀ ਲਾਗੀ ਖੋਰਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: انسان نے "رام" کا دھیان نہیں کیا، اُسے بڑی سخت بیماری لگ گئی ہے۔
ਕਾਇਆ ਹਾਂਡੀ ਕਾਠ ਕੀ ਨਾ ਓਹ ਚਰ੍ਹੈ ਬਹੋਰਿ ॥੭੦॥
یہ جسم لکڑی کی ہانڈی کی طرح ہے، جو دوبارہ آگ پر نہیں چڑھتی یعنی انسانی جنم دوبارہ نہیں ملتا۔ 70
ਕਬੀਰ ਐਸੀ ਹੋਇ ਪਰੀ ਮਨ ਕੋ ਭਾਵਤੁ ਕੀਨੁ ॥
کبیر کہتے ہیں: جب سب کچھ من کی مرضی سے ہی کرلیا، تو پھر
ਮਰਨੇ ਤੇ ਕਿਆ ਡਰਪਨਾ ਜਬ ਹਾਥਿ ਸਿਧਉਰਾ ਲੀਨ ॥੭੧॥
تو اب مرنے سے ڈر کیسا؟ جیسے ستی عورت سندور اور ناریل ہاتھ میں لے کر ستی ہونے کو تیار ہو جاتی ہے۔ 71
ਕਬੀਰ ਰਸ ਕੋ ਗਾਂਡੋ ਚੂਸੀਐ ਗੁਨ ਕਉ ਮਰੀਐ ਰੋਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: جیسے رس کے لیے گنا چوسا جاتا ہے، ویسے ہی خوبیوں کو پانے کے لیے دکھ سہنے پڑتے ہیں،
ਅਵਗੁਨੀਆਰੇ ਮਾਨਸੈ ਭਲੋ ਨ ਕਹਿਹੈ ਕੋਇ ॥੭੨॥
کیوں کہ غیر اہل شخص کو کوئی بھی اچھا نہیں کہتا۔ 72۔
ਕਬੀਰ ਗਾਗਰਿ ਜਲ ਭਰੀ ਆਜੁ ਕਾਲ੍ਹ੍ਹਿ ਜੈਹੈ ਫੂਟਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: یہ جسم پانی سے بھرا مٹکا ہے، جو آج یا کل پھٹ جائے گا۔
ਗੁਰੁ ਜੁ ਨ ਚੇਤਹਿ ਆਪਨੋ ਅਧ ਮਾਝਿ ਲੀਜਹਿਗੇ ਲੂਟਿ ॥੭੩॥
اگر انسان اپنے گرو یا رب کو یاد نہ کرے، تو آدھے راستے میں ہی لُٹ جائے گا۔ 73
ਕਬੀਰ ਕੂਕਰੁ ਰਾਮ ਕੋ ਮੁਤੀਆ ਮੇਰੋ ਨਾਉ ॥
کبیر کہتے ہیں: میں رام کا کتا ہوں، اور میرا نام "موٹی" ہے۔
ਗਲੇ ਹਮਾਰੇ ਜੇਵਰੀ ਜਹ ਖਿੰਚੈ ਤਹ ਜਾਉ ॥੭੪॥
میرے گلے میں زنجیر پڑی ہے، جہاں مالک کھینچتا ہے، میں وہیں چلا جاتا ہوں۔ 74
ਕਬੀਰ ਜਪਨੀ ਕਾਠ ਕੀ ਕਿਆ ਦਿਖਲਾਵਹਿ ਲੋਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: لکڑی کی مالا لوگوں کو دکھانے کا کیا فائدہ؟
ਹਿਰਦੈ ਰਾਮੁ ਨ ਚੇਤਹੀ ਇਹ ਜਪਨੀ ਕਿਆ ਹੋਇ ॥੭੫॥
اگر دل میں "رام" نہ ہو، تو ایسی مالا کس کام کی؟ 75
ਕਬੀਰ ਬਿਰਹੁ ਭੁਯੰਗਮੁ ਮਨਿ ਬਸੈ ਮੰਤੁ ਨ ਮਾਨੈ ਕੋਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: جب جدائی کا سانپ من میں ڈس لیتا ہے، تو اُس پر کوئی منتر اثر نہیں کرتا۔
ਰਾਮ ਬਿਓਗੀ ਨਾ ਜੀਐ ਜੀਐ ਤ ਬਉਰਾ ਹੋਇ ॥੭੬॥
رام" سے جدائی میں انسان یا تو مر جاتا ہے، یا پاگل ہو جاتا ہے۔ 76
ਕਬੀਰ ਪਾਰਸ ਚੰਦਨੈ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹ ਹੈ ਏਕ ਸੁਗੰਧ ॥
کبیر کہتے ہیں: پارس اور چَندن دونوں میں خوشبو ہے،
ਤਿਹ ਮਿਲਿ ਤੇਊ ਊਤਮ ਭਏ ਲੋਹ ਕਾਠ ਨਿਰਗੰਧ ॥੭੭॥
جو اُن سے جُڑ جاتا ہے، وہ لوہا ہو یا بے کار لکڑی قیمتی ہوجاتا ہے۔ 77۔
ਕਬੀਰ ਜਮ ਕਾ ਠੇਂਗਾ ਬੁਰਾ ਹੈ ਓਹੁ ਨਹੀ ਸਹਿਆ ਜਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: یم کی لاٹھی بڑی سخت ہے، اُسے سہنا ممکن نہیں۔
ਏਕੁ ਜੁ ਸਾਧੂ ਮੋੁਹਿ ਮਿਲਿਓ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹਿ ਲੀਆ ਅੰਚਲਿ ਲਾਇ ॥੭੮॥
مگر مجھے ایک صادق ملا، جس نے مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ 78
ਕਬੀਰ ਬੈਦੁ ਕਹੈ ਹਉ ਹੀ ਭਲਾ ਦਾਰੂ ਮੇਰੈ ਵਸਿ ॥
کبیر کہتے ہیں: حکیم کہتا ہے، میں ہی سب کچھ ہوں، شفا میرے ہاتھ میں ہے۔
ਇਹ ਤਉ ਬਸਤੁ ਗੁਪਾਲ ਕੀ ਜਬ ਭਾਵੈ ਲੇਇ ਖਸਿ ॥੭੯॥
لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ کوئی (ڈاکٹر) بھی موت کے منہ سے نہیں بچا سکتا، کیونکہ یہ زندگی تو رب کے ہاتھ میں ہے، وہ جب چاہے، زندگی چھین لے۔ 76۔
ਕਬੀਰ ਨਉਬਤਿ ਆਪਨੀ ਦਿਨ ਦਸ ਲੇਹੁ ਬਜਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: اے انسان! اپنی شان و شوکت کے بگل دس دن بجا لو
ਨਦੀ ਨਾਵ ਸੰਜੋਗ ਜਿਉ ਬਹੁਰਿ ਨ ਮਿਲਹੈ ਆਇ ॥੮੦॥
کیونکہ جیسے دریا پار کرنے والے مسافر ایک بار ملتے ہیں اور پھر دوبارہ نہیں، ویسے ہی یہ جنم دوبارہ نہیں ملتا۔ 80
ਕਬੀਰ ਸਾਤ ਸਮੁੰਦਹਿ ਮਸੁ ਕਰਉ ਕਲਮ ਕਰਉ ਬਨਰਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: چاہے ساتوں سمندر کو سیاہی بنا لیا جائے، تمام درخت قلم بن جائیں،
ਬਸੁਧਾ ਕਾਗਦੁ ਜਉ ਕਰਉ ਹਰਿ ਜਸੁ ਲਿਖਨੁ ਨ ਜਾਇ ॥੮੧॥
اور زمین کاغذ بن جائے تب بھی رب کی عظمت مکمل طور پر لکھی نہیں جا سکتی۔ 81۔
ਕਬੀਰ ਜਾਤਿ ਜੁਲਾਹਾ ਕਿਆ ਕਰੈ ਹਿਰਦੈ ਬਸੇ ਗੁਪਾਲ ॥
کبیر کہتے ہیں: اگر دل میں رب بسا ہو تو ذات جُلاہا ہونے کا کوئی فرق نہیں۔
ਕਬੀਰ ਰਮਈਆ ਕੰਠਿ ਮਿਲੁ ਚੂਕਹਿ ਸਰਬ ਜੰਜਾਲ ॥੮੨॥
جب رب دل میں ہو، تو سب جھنجھٹ ختم ہو جاتے ہیں۔ 82۔
ਕਬੀਰ ਐਸਾ ਕੋ ਨਹੀ ਮੰਦਰੁ ਦੇਇ ਜਰਾਇ ॥
کبیر کہتے ہیں: کوئی ایسا نہیں جو مایا کا محل جلا دے اور
ਪਾਂਚਉ ਲਰਿਕੇ ਮਾਰਿ ਕੈ ਰਹੈ ਰਾਮ ਲਿਉ ਲਾਇ ॥੮੩॥
پانچ براث کو مار کر صرف "رام" کے دھیان میں لگا رہے۔ 83
ਕਬੀਰ ਐਸਾ ਕੋ ਨਹੀ ਇਹੁ ਤਨੁ ਦੇਵੈ ਫੂਕਿ ॥
کبیر جی کہتے ہیں کہ کوئی ایسا بھی نہیں جو اس جسم کی خواہشات کو جلا دے
ਅੰਧਾ ਲੋਗੁ ਨ ਜਾਨਈ ਰਹਿਓ ਕਬੀਰਾ ਕੂਕਿ ॥੮੪॥
کبیر چیخ چیخ کر سمجھا رہا ہے، مگر اندھے لوگ کچھ نہیں سمجھتے۔ 84۔
ਕਬੀਰ ਸਤੀ ਪੁਕਾਰੈ ਚਿਹ ਚੜੀ ਸੁਨੁ ਹੋ ਬੀਰ ਮਸਾਨ ॥
کبیر کہتے ہیں کہ ستی اپنے فوت شدہ شوہر کی چتا پر کہتی ہے، اے شمشان! میری بات سنو!
ਲੋਗੁ ਸਬਾਇਆ ਚਲਿ ਗਇਓ ਹਮ ਤੁਮ ਕਾਮੁ ਨਿਦਾਨ ॥੮੫॥
سب لوگ اس دنیا کو چھوڑ کر جاچکے ہیں، اب تمہارا کام بھی یہیں ختم ہونا ہے۔ 85۔