Guru Granth Sahib Translation Project

Guru Granth Sahib Urdu Page 943

Page 943

ਪਵਨ ਅਰੰਭੁ ਸਤਿਗੁਰ ਮਤਿ ਵੇਲਾ ॥ (گرو نانک دیو جی جواب دیتے ہیں کہ) کائنات کی ابتدا ہوا نما سانس ہے۔ یہ انسانی زندگی صادق گرو سے تعلیمات حاصل کرنے کا اچھا موقع ہے۔
ਸਬਦੁ ਗੁਰੂ ਸੁਰਤਿ ਧੁਨਿ ਚੇਲਾ ॥ لفظ میرا ٹیچر ہے اور کلام کے دھن کو سننے والا میرا دل اس کا شاگرد ہے۔
ਅਕਥ ਕਥਾ ਲੇ ਰਹਉ ਨਿਰਾਲਾ ॥ میں ناقابل بیان رب کی کہانی لے کر دنیا سے لاتعلق رہتا ہوں۔
ਨਾਨਕ ਜੁਗਿ ਜੁਗਿ ਗੁਰ ਗੋਪਾਲਾ ॥ اے نانک! ہر زمانے میں ایک رب ہی موجود ہے۔
ਏਕੁ ਸਬਦੁ ਜਿਤੁ ਕਥਾ ਵੀਚਾਰੀ ॥ ایک لفظ ہی ہے، جس کی کہانی سے متعلق سوچا ہے۔
ਗੁਰਮੁਖਿ ਹਉਮੈ ਅਗਨਿ ਨਿਵਾਰੀ ॥੪੪॥ گرو کے ذریعے غرور کی آگ کو دل سے نکال دیا ہے۔ 44۔
ਮੈਣ ਕੇ ਦੰਤ ਕਿਉ ਖਾਈਐ ਸਾਰੁ ॥ سدھوں نے سوال کیا: موم کی دانتوں سے لوہے کو کیسے چبایا جاسکتا ہے؟
ਜਿਤੁ ਗਰਬੁ ਜਾਇ ਸੁ ਕਵਣੁ ਆਹਾਰੁ ॥ وہ کون سا کھانا ہے، جس کے کھانے سے دل کا غرور مٹ جاتا ہے؟
ਹਿਵੈ ਕਾ ਘਰੁ ਮੰਦਰੁ ਅਗਨਿ ਪਿਰਾਹਨੁ ॥ اگر رہائش کے لیے برف کا گھر بنایا ہو، تو آگ کا کون سا لباس پہنا جاتا ہے؟
ਕਵਨ ਗੁਫਾ ਜਿਤੁ ਰਹੈ ਅਵਾਹਨੁ ॥ ’’وہ کون سا غار ہے، جس میں دل مستحکم رہتا ہے؟‘‘
ਇਤ ਉਤ ਕਿਸ ਕਉ ਜਾਣਿ ਸਮਾਵੈ ॥ یہ دل دنیا و آخرت میں کسے جان کر اس میں سما جاتا ہے؟
ਕਵਨ ਧਿਆਨੁ ਮਨੁ ਮਨਹਿ ਸਮਾਵੈ ॥੪੫॥ وہ کون سا دھیان ہے، جس میں دل اپنی ذات میں مگن ہوجاتا ہے۔ 45۔
ਹਉ ਹਉ ਮੈ ਮੈ ਵਿਚਹੁ ਖੋਵੈ ॥ گرو جی نے جواب دیا: جو شخص غرور اور لگاؤ کے جذبات سے دل کو پاک کرلیتا ہے،
ਦੂਜਾ ਮੇਟੈ ਏਕੋ ਹੋਵੈ ॥ وہ اپنا شبہات دور کرکے رب کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
ਜਗੁ ਕਰੜਾ ਮਨਮੁਖੁ ਗਾਵਾਰੁ ॥ احمق نفس پرست انسان کے لیے یہ کائنات سخت لوہا ہے۔
ਸਬਦੁ ਕਮਾਈਐ ਖਾਈਐ ਸਾਰੁ ॥ جو کلام کا دھیان کرتا ہے، وہ سخت لوہے کو چباجاتا ہے۔
ਅੰਤਰਿ ਬਾਹਰਿ ਏਕੋ ਜਾਣੈ ॥ وہ کائنات میں اندر اور باہر رب کو ہی موجود تصور کرتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਅਗਨਿ ਮਰੈ ਸਤਿਗੁਰ ਕੈ ਭਾਣੈ ॥੪੬॥ اے نانک! صادق گرو کی رضا میں رہنے سے ہی پیاس کی آگ بجھتی ہے۔ 46۔
ਸਚ ਭੈ ਰਾਤਾ ਗਰਬੁ ਨਿਵਾਰੈ ॥ حق کے خوف میں ڈوبا ہوا انسان جب اپنا غرور مٹادیتا ہے۔
ਏਕੋ ਜਾਤਾ ਸਬਦੁ ਵੀਚਾਰੈ ॥ تو وہ ایک رب کی طاقت تسلیم کرتے ہوئے رب ہی کی ذات پر غور و خوض کرتا ہے۔
ਸਬਦੁ ਵਸੈ ਸਚੁ ਅੰਤਰਿ ਹੀਆ ॥ اس طرح اس کے باطن میں لفظ پرہا کا دخول ہوجاتا ہے،
ਤਨੁ ਮਨੁ ਸੀਤਲੁ ਰੰਗਿ ਰੰਗੀਆ ॥ اس کا جسم اور اس کی روح کو ٹھنڈک پہنچ جاتی ہے اور وہ ر۔ کے رنگ میں رنگین ہوجاتا ہے۔
ਕਾਮੁ ਕ੍ਰੋਧੁ ਬਿਖੁ ਅਗਨਿ ਨਿਵਾਰੇ ॥ وہ اپنے دل سے شہوت، غصہ اور زہر نما پیاس کی آگ کو نکال دیتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਨਦਰੀ ਨਦਰਿ ਪਿਆਰੇ ॥੪੭॥ اے نانک! وہ محبوب رب کی نظر کرم سے مسرور ہوجاتا ہے۔47۔
ਕਵਨ ਮੁਖਿ ਚੰਦੁ ਹਿਵੈ ਘਰੁ ਛਾਇਆ ॥ (سدھوں نے دوبارہ سوال کیا) کہ کیسے (دل نما) چاند برف جیسے دل کے گھر میں ٹھنڈک حاصل کرتا رہتا ہے؟
ਕਵਨ ਮੁਖਿ ਸੂਰਜੁ ਤਪੈ ਤਪਾਇਆ ॥ کیسے (طاقت ور) سورج شدت سے جلتا رہتا ہے؟
ਕਵਨ ਮੁਖਿ ਕਾਲੁ ਜੋਹਤ ਨਿਤ ਰਹੈ ॥ کس طرح یم روزانہ انسانوں کی طرف دیکھتا رہتا ہے؟
ਕਵਨ ਬੁਧਿ ਗੁਰਮੁਖਿ ਪਤਿ ਰਹੈ ॥ کس حکمت سے گرومکھ کا وقار برقرار رہتا ہے؟
ਕਵਨੁ ਜੋਧੁ ਜੋ ਕਾਲੁ ਸੰਘਾਰੈ ॥ وہ کون سی جنگ ہے، جو یمراج کا بھی خاتمہ کردیتی ہے؟
ਬੋਲੈ ਬਾਣੀ ਨਾਨਕੁ ਬੀਚਾਰੈ ॥੪੮॥ سدھ جو بولتے ہیں، نانک ان سوالات پر غور و خوض کرکے اس کا جواب دیتے ہیں۔ 48۔
ਸਬਦੁ ਭਾਖਤ ਸਸਿ ਜੋਤਿ ਅਪਾਰਾ ॥ (گرو نانک نے جواب دیا کہ) کلام کے ورد سے (دل نما) چاند کے دل جیسے گھر میں بے پناہ نور منور ہوجاتا ہے۔
ਸਸਿ ਘਰਿ ਸੂਰੁ ਵਸੈ ਮਿਟੈ ਅੰਧਿਆਰਾ ॥ جب چاند کے گھر میں سورج کی رہائش ہوجاتی ہے، تو ساری تاریکی مت جاتی ہے۔
ਸੁਖੁ ਦੁਖੁ ਸਮ ਕਰਿ ਨਾਮੁ ਅਧਾਰਾ ॥ جب نام زندگی کی بنیاد بن جاتا ہے، تو انسان خوشی و غم کو یکساں سمجھنے لگتا ہے۔
ਆਪੇ ਪਾਰਿ ਉਤਾਰਣਹਾਰਾ ॥ واہے گرو خود ہی دنیوی سمندر سے پار کرنے والا ہے۔
ਗੁਰ ਪਰਚੈ ਮਨੁ ਸਾਚਿ ਸਮਾਇ ॥ گرو پر یقین رکھنے سے دل سچائی میں ہی مگن ہوجاتا ہے۔
ਪ੍ਰਣਵਤਿ ਨਾਨਕੁ ਕਾਲੁ ਨ ਖਾਇ ॥੪੯॥ نانک دعا کرتے ہیں کہ پھر موت انسان خوراک نہیں بناتا۔ 46۔
ਨਾਮ ਤਤੁ ਸਭ ਹੀ ਸਿਰਿ ਜਾਪੈ ॥ (گرو جی سدھوں کو سمجھتے ہیں کہ) رب کا نام اعلیٰ عنصر ہے۔
ਬਿਨੁ ਨਾਵੈ ਦੁਖੁ ਕਾਲੁ ਸੰਤਾਪੈ ॥ نام کے بغیر انسان موت کی تکلیف و اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔
ਤਤੋ ਤਤੁ ਮਿਲੈ ਮਨੁ ਮਾਨੈ ॥ جب روح مالک اعلی سے مل جاتی ہے، تو دل مطمئن ہوجاتا ہے۔
ਦੂਜਾ ਜਾਇ ਇਕਤੁ ਘਰਿ ਆਨੈ ॥ اس کا شبہ دور ہوجاتا ہے اور یہ رب کے قدموں میں ضم ہوجاتا ہے۔
ਬੋਲੈ ਪਵਨਾ ਗਗਨੁ ਗਰਜੈ ॥ جب زندگی جیسی ہوا رب کا نام لیتی ہے، تو دسواں در نما آسمان گرجتا ہے۔
ਨਾਨਕ ਨਿਹਚਲੁ ਮਿਲਣੁ ਸਹਜੈ ॥੫੦॥ اے نانک! نام کے ذکر سے دل پرسکون ہو جاتا ہے اور اس کی بآسانی ہی سچائی سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ 50۔
ਅੰਤਰਿ ਸੁੰਨੰ ਬਾਹਰਿ ਸੁੰਨੰ ਤ੍ਰਿਭਵਣ ਸੁੰਨ ਮਸੁੰਨੰ ॥ انسان کے اندر اور باہر رب ہی موجود ہے۔ تینوں جہانوں میں بھی اسی کی طاقت کا زور ہے۔
ਚਉਥੇ ਸੁੰਨੈ ਜੋ ਨਰੁ ਜਾਣੈ ਤਾ ਕਉ ਪਾਪੁ ਨ ਪੁੰਨੰ ॥ جو شخص مراقبے کی اعلی حالت رب کا ادراک کرلیتا ہے، اس پر نیکی اور گناہ اثر انداز نہیں ہوتا۔
ਘਟਿ ਘਟਿ ਸੁੰਨ ਕਾ ਜਾਣੈ ਭੇਉ ॥ وہ ذرے ذرے میں موجود رب کا راز حاصل کرلیتا ہے۔
ਆਦਿ ਪੁਰਖੁ ਨਿਰੰਜਨ ਦੇਉ ॥ ہمیشہ سے قائم بے عیب رب کا ادراک کرلیتا ہے۔
ਜੋ ਜਨੁ ਨਾਮ ਨਿਰੰਜਨ ਰਾਤਾ ॥ اے نانک! جو شخص بے عیب ہستی کے نام میں مگن ہوجاتا ہے،
ਨਾਨਕ ਸੋਈ ਪੁਰਖੁ ਬਿਧਾਤਾ ॥੫੧॥ وہ خالق کی شکل میں ہوجاتا ہے۔ 51۔
ਸੁੰਨੋ ਸੁੰਨੁ ਕਹੈ ਸਭੁ ਕੋਈ ॥ (سدھوں نے دوبارہ سوال کیا کہ) ہر ایک شخص رب رب کہتا رہتا ہے۔
ਅਨਹਤ ਸੁੰਨੁ ਕਹਾ ਤੇ ਹੋਈ ॥ لیکن اس خالق و مالک کا وجود کیسے ہوا ہے؟
ਅਨਹਤ ਸੁੰਨਿ ਰਤੇ ਸੇ ਕੈਸੇ ॥ جو یاد رب میں مگن ہے، وہ کیسے ہیں؟
ਜਿਸ ਤੇ ਉਪਜੇ ਤਿਸ ਹੀ ਜੈਸੇ ॥ (گرو نانک دیو جی نے جواب دیا-) وہ جس رب سے وجود میں آیا ہے، وہ اسی جیسا بن جاتا ہے۔
ਓਇ ਜਨਮਿ ਨ ਮਰਹਿ ਨ ਆਵਹਿ ਜਾਹਿ ॥ وہ پیدائش و موت سے آزاد ہیں؛ اس لیے نہ وہ پیدا ہوکر آتے ہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد یہاں سے جاتے ہیں۔
ਨਾਨਕ ਗੁਰਮੁਖਿ ਮਨੁ ਸਮਝਾਹਿ ॥੫੨॥ اے نانک! گرو مکھ بھولے ہوئے دماغ کو سمجھالیتا ہے۔ 52۔
ਨਉ ਸਰ ਸੁਭਰ ਦਸਵੈ ਪੂਰੇ ॥ جب انسان کی دو آنکھیں، دو کان، نتھنے، منہ وغیرہ نو جھیلیں نام امرت سے بھرجاتے ہیں، تو
ਤਹ ਅਨਹਤ ਸੁੰਨ ਵਜਾਵਹਿ ਤੂਰੇ ॥ اس کا دسواں در بھی نام امرت سے لبریز ہوجاتا ہے اور تب ہی وہ قلبی آواز کی دھن بجاتا ہے۔
ਸਾਚੈ ਰਾਚੇ ਦੇਖਿ ਹਜੂਰੇ ॥ وہ حق کو ذاتی طور پر دیکھ کر اسی میں مگن ہوجاتا ہے۔
ਘਟਿ ਘਟਿ ਸਾਚੁ ਰਹਿਆ ਭਰਪੂਰੇ ॥ کیوں کہ حقیقی اعلی رب ذرے ذرے میں سمایا ہوا ہے۔


© 2017 SGGS ONLINE
error: Content is protected !!
Scroll to Top